صفحات

ہفتہ، 30 اگست، 2014

فقہ حنفی میں تیمم کی نیت کرنا اور غیر مقلدین کا دھوکہ

فقہ حنفی میں تیمم کی نیت کرنا اور غیر مقلدین کا دھوکہ
غیر مقلدین نے ہمیشہ کی طرح یہ حوالہ دینے میں بھی خیانت کی اور حوالہ ادھورا نقل کیا۔
مکمل حوالہ اس طرح ہے کہ '' اگر طھارت کی نیت کرے یا نماز مباح ہونے کی نیت کرے تب بھی کافی ہے حدث یا جنابت کے لئے نیت کرنا ضروری نہیں'' لیکن غیر مقلدین نےاپنی عادت سے مجبور ہو کر ہمیشہ کی طرح آدھی عبارت نقل کی اورآدھی عبارت چھوڑ دی۔تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے۔

مسئلہ یہی ہے کہ تیمم میں صرف طھارت کی نیت کافی ہے حدث،یا جنابت کے لئے الگ نیت کرنا ضروری نہیں۔اس حوالہ سے پہلے ہدایہ میں تیمم کے مسائل میں واضح لکھا ہے کہ تیمم کےلئے نیت کرنا فرض ہے اور یہ احناف کا مسئلہ ہے اور امام زفرؒ کے نزدیک تیمم میں نیت فرض نہیں۔
احناف نے تو واضح تیمم میں نیت کو فرض کہا۔

غلامِ خاتم النبیینﷺ
محسن اقبال

فقہ حنفی میں وطی فی الدبر کی حد اور غیر مقلدین کا دھوکہ

فقہ حنفی میں وطی فی الدبر کی حد اور غیر مقلدین کا دھوکہ

غیر مقلدین نے یہ حوالہ بھی ہمیشہ کی طرح خیانت کرتے ہوئے ادھورا پیش کیا۔ اس حوالہ میں واضح لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک لواطت کرنے پہ فاعل اور مفعول دونوں پہ تعزیر ہو گی لیکن غیر مقلدین نے دھوکہ دیتے ہوئے تعزیز کا لفظ نقل ہی نہیں کیا اور اپنی مرضی سے ترجمہ کر دیا کہ فقہ حنفی میں اس کی کوئی سزا نہیں۔۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک لوطی پہ تعزیر ہے اس بات کا اعتراف غیر مقلد کے نواب صدیق حسن خان نے بھی کیا ہے کہ امام صاحبؒ کے نزدیک حد نہیں بلکہ تعزیر ہے( روضۃ الندیہ،صفحہ 261)

یہ تعزیر صرف امام ابو حنیفہؒ کا مذھب نہیں بلکہ غیر مقلد عبدالرحمان مبارکپوری کے نزدیک امام ابو حنفیہؒ اور امام شافعی کے ایک مذھب کے مطابق لوطی پہ صرف تعزیر لگائی جائےاور ان کا استدلال حدیث سے ہے۔(تحفۃ الاحوذی،کتاب الحدود)

علامہ ابن تیمیہؒ کے نزدیک بھی جس نے بھی بیوی کی دبر میں وطی کی اوربیوی نے بھی اس کی اطاعت کی تودونوں کوتعزیر لگائی جاۓ گی ، اوراگر تعزیر کے بعد بھی وہ باز نہ آئيں توجس طرح فاجراورجس کے ساتھ فجور کا ارتکاب کیا گیا ہوان کے درمیان علیحدگی کردی جاتی ہے(فتاوی ابن تیمیہ،جلد3 صفحہ 103،104)
ہے کسی غیر مقلد میں ہمت جو علامہ ابن تیمیہؒ پہ وہی فتوی لگائے جو احناف پہ لگاتے ہیں؟؟؟

ابن تیمیہؒ کی اس تعزیر کا حکم غیر مقلدین کے محدث فتاوی کی ویب سائٹ پہ بھی موجود ہے اور غیر مقلدین کے محدث فتاوی کی کمیٹی کے مطابق بھی اگر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ دبرمیں وطی کرنے پر اتفاق کرلیں اور تعزير لگاۓ جانے کے باوجود بھی باز نہ آئيں توان دونوں کے درمیان علیحدگی کردی جائے گی ۔


غیر مقلدو! امام ابو حنیفہؒ تعزیر کہیں تو تم ان پہ حدیث کی مخالفت کا الزام لگاتے ہو تو اگر ہمت ہے تو علامہ ابن تیمیہؒ پہ بھی حدیث کی مخالفت کا الزام لگاؤ کہ ان کے نزدیک بھی لوطی کے لئے فقط تعزیر ہے اور بقول عبدالرحمان مبارکپوری امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعی کے نزدیک تعزیر ہے اور ان کااستدلال حدیث سے ہے تو پھر امام شافعیؒ پہ بھی اس تعزیر پہ کیا فتوی لگے گا؟؟؟ 

غلامِ خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال

فقہ حنفی میں نماز عید کی تکبیرات اور غیر مقلدین کا جھوٹ اور فریب


غیر مقلدین اپنے پوسٹر میں موجود فقہ حنفی والی عبارت ھدایہ سے نکال کر دکھا دیں۔
غیر مقلدین نے فقہ حنفی پہ نماز عید کی زائد تکبیرات کے بارے میں اعتراض کیا ہے لیکن دھوکہ دیتے ہوئے ادھوری عبارت نقل کی اور مکمل عبارت نقل نہیں کی۔

ہدایہ میں جہاں لکھا ہے کہ نماز عید میں پہلی رکعت میں قرآت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرآت کے بعد تین تین تکبیر زائد کہے اس عبارت کے بعد لکھا ہے کہ ''یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور وہی ہمارا قول ہے'' جس کو غیر مقلدین نے نقل نہیں کیا۔اصل میں احناف نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو دلیل بنایا ہے لیکن غیر مقلدین دھوکہ دیتے ہوئے ہدایہ کی یہ مکمل عبارت نقل نہیں کرتے۔احناف کے چند دلائل اوپر پیشِ خدمت ہیں۔

ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں. [خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (٣) ہے۔] 
[ مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526 ]

عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا ، وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ، فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، وَهَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ : سَلْ هَذَا ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ " يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ " .
[مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528]

ترجمہ : علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابو موسیٰؓ بھی بیٹھے ہوۓ تھے. تو ان سے حضرت سعید بن العاصؓ نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان (حضرت حذیفہؓ) سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہؓ نے کہا : یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے)
[المعجم الکبیر للطبرانی : ٤/٥٩٣، رقم : ٩٤٠٢؛ مصنف عبد الرزاق : ٣/١٦٧، باب تكبير في الصلاة يوم العيد، رقم : ٥٧٠٤]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » أبواب العيدين » باب التكبير في العيد والقراءة فيه, مسألة: 3249]
فتح القدير » كتاب الصلاة » باب صلاة العيدين, ص: 75- 76
المحلى بالآثار » الأعمال المستحبة في الصلاة وليست فرضا » صلاة العيدين » مسألة العمل والبيع في العيدين, ص: 296
نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية » كتاب الصلاة » باب صلاة العيدين, ص: 257

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، " أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْعِيدِ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ، ثُمَّ قَامَ فِي الثَّانِيَةِ فَقَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ " . حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، مِثْلَهُ .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ..., رقم الحديث: 4825]

ترجمہ : حضرت عبدالله بن حارث رح نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے پیچھے نماز پڑھی. حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ نے پہلے چار تکبیریں کہیں، پھر قرأت کی، پھر تکبیر کہکر رکوع کیا. پھر جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوۓ تو پہلے قرأت کی پھر تین تکبیریں کہیں، پھر (چوتھی) تکبیر کہکر رکوع کیا. 
[سنن الطحاوی]

حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں تکبیراتِ جنازہ کے چار (٤) ہونے پر تمام صحابہِ کرام کا "اتفاق (یعنی اجماع) ہوا. حديث کے الفاظ ہیں : فَأَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ عَلَى أَنْ يَجْعَلُوا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَائِزِ ، مِثْلَ التَّكْبِيرِ فِي الأَضْحَى وَالْفِطْرِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ ، فَأُجْمِعَ أَمْرُهُمْ عَلَى ذَلِكَ " .

[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الْجَنَائِزِ » بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَائِزِ كَمْ هُوَ ؟ ..., رقم الحديث: 1810]
ترجمہ : تو انہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ نماز عید الأضحى اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح جنازہ کی بھی چار تکبیریں ہیں.

غیر مقلدین نے اس مسئلہ میں بھی دھوکہ دیا اور جھوٹ بولا ہے۔۔

غلامِ خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال

ہفتہ، 2 اگست، 2014

فقہ حنفی میں سورج گرہن کی نماز اور غیر مقلدین کا دھوکہ و فریب

غیر مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں سورج گرہن کی نماز عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے اور ہر رکعت میں ایک رکوع کیا جائے اور فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے۔
غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح دھوکہ دیتے ہیں اور ادھوری عبارت نقل کرتے ہیں۔

ہدایہ میں اس عبار ت کے بعد آگے لکھا ہے کہ ہماری دلیل ابن عمر رضی اللہ کی روایت ہے جس کو ترجیح ہے لیکن غیر مقلدین یہ عبارت نقل نہیں کرتے۔
غیر مقلد زبیر زئی کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ کی اس روایت کی سند حسن ہے۔
احناف کا موقف احادیث پہ مبنی ہے اور سورج گرہن کی ہر رکعت میں ایک رکوع کرنے پہ کئی احادیث موجود ہیں جن کو میں نے پیش کیا ہے۔
غیر مقلد زبیر زئی کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ کی یہ روایت حسن ہے اور نماز کسوف کی رکعت میں ایک رکوع کرنا بھی جائز ہے۔(ابو داود بتحقیق زبیر زئی،ج1 صفحہ 836)


تو ثابت ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی غیر مقلدین دھوکہ اور فریب دیتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح غلط بیانی سے کام لیتے ہیں کہ احناف کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ احناف کا موقف احادیث پہ مبنی ہے۔

غلامِ خاتم النبیین ﷺ

محسن اقبال