مشہور روایت یا سارية الجبل اور غیر مقلد ین کے مستند علماء کی تصدیق
کشف کی ایک مثال حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا ہوا درج ذیل واقعہ ہے ، چنانچہ ایک بار وہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھےکہ لوگوں نے سنا : آپ کہہ رہے ہیں ، "یا ساریۃ الجبل" اے ساریہ پہاڑ میں پناہ لو ، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا، اور جب آپ سے اسکی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : میرے سامنے ایسا ظاہر ہوا کہ ساریہ بن زنیم جو آپ کے ایک کما نڈر تھے ۔ دشمنوں کے نرغہ میں ہیں اور انکا رخ پہاڑ کی طرف ہے تو میں نے کہا اے ساریہ پہاڑ پہاڑ ، ساریہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی ، پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور اسکی پناہ میں پہنچ گئے ۔ یہ ایک کشف تھا کیونکہ ایسا واقعہ کہیں بہت دور پیش آیا تھا، جسکا انکشاف حضرت عمر پر ہوگیا
امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ، امام سیوطی نے جامع الاحادیث میں ، امام علی المتقی الہندی نے کنزل العمال میں ، اور امام ابن حجر عسقلانی نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ‘ اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے؛ کنز العمال کا متن ملاحظہ کریں ؛
عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن".
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا: اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا : ائے امیر المؤمنین ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے ۔
(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء ،فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر:28657)
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
فتاوى اللجنة الدائمة
تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن
(الجزء رقم : 26، الصفحة رقم: 41)
بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)،
وأبو نعيم في (دلائل النبوة)
والضياء في (المنتقى من مسموعاته)
وابن عساكر في (تاريخه)
والبيهقي في (دلائل النبوة)
وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده،
ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا.
وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر
(الجزء رقم : 26، الصفحة رقم: 42)
رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضوعضوعضوعضوالرئيس
بكر أبو زيد
عبد العزيز آل الشيخ
صالح الفوزان
عبد الله بن غديان
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
شیخ صالح العثمین ؒصاحب سے پوچھا گیا کہ یا ساریة الجبل کے واقعہ سے کیا اسباق ثابت ہوتے ہیں؟؟ تو انہوں نےجو جواب دیا اس کا مفہوم ہے کہ ''اس سے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رض کی کرامت ثابت ہوتی ہےاور پھر اخیر میں فرمایا کہکرامات اولیاء کا ثبوت بھی اس سے معلوم ہوتا ہے
(آگے کرامت کی تعریف کی ہے)
کہ کرامت ہر اس امر کو کہا جاتا ہے جو خارق للعادة ہو اللہ ج اسے اپنے اولیاء میں سے کسی ولی کے ہاتھ پر جاری فرماتے ہیں اس ولی کی تکریم کی خاطر اور اس راستے کی تصحیح کی خاطر جس پر وہ ولی چلتا ہے اسی وجہ سے ہر ولی کی کرامت ایک نشانی ہے اور معجزہ ہے اس رسول ص کا جسکی اتباع وہ ولی کرتا ہے
(اور پھر تھوڑا سا آگے فرمارہے ہیں)
کہ کرامت کبھی تو ولی پر آئی ہوئی شدت و بلا سے اس ولی کو چھٹکارا دینے کے لئے ہوتی ہے اور کبھی اللہ ج کے دین کے اس امر کے اعزاز کے لئے ہوتی ہے جسکی طرف وہ ولی دعوت دیتا ہے۔(فتاوی نور علی الدرب،جلد 12،صفحہ 268،267)
دوسرا سوال کہ یہ جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ عمر بن خطاب رض نے جبکہ وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے ساریہ رض کو دیکھا اور وہ دشمن کے مقابلے میں جنگ کے میدان میں تھے تو عمر رض نے فرمایا یا ساریة الجبل کیا یہ قصہ واقعی میں رونما ہوا ہے یا ایسے ہی ایک خیال ہے بس شریعت اس متعلق کیا کہتی ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ قصہ مشھور ہے عمر بن خطاب رض سے متعلق
(اور پھر تھوڑا سا آگے فرمارہے ہیں)
کہ اس جیسے واقعات کا شمار کرامات اولیاء میں ہوتا ہے اور اللہ ج اسے اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتے ہیں انکے دل کی مظبوطی کے لئے اور حق کی مدد کے لئے اور ایسی کرامت گذشتہ امتوں میں بھی موجود ہے اور اس امت میں بھی اور قیامت کے دن تک ہمیشہ رہیگی اور کرامت ایک ایسی شئ ہے جو خارق للعادة ہو اللہ ج اسے ظاھر فرماتے ہیں ولی کے ہاتھ پر اس کے دل کی مظبوطی کے لئے اور حق کی تائیید کے لئے۔
کہ اس جیسے واقعات کا شمار کرامات اولیاء میں ہوتا ہے اور اللہ ج اسے اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتے ہیں انکے دل کی مظبوطی کے لئے اور حق کی مدد کے لئے اور ایسی کرامت گذشتہ امتوں میں بھی موجود ہے اور اس امت میں بھی اور قیامت کے دن تک ہمیشہ رہیگی اور کرامت ایک ایسی شئ ہے جو خارق للعادة ہو اللہ ج اسے ظاھر فرماتے ہیں ولی کے ہاتھ پر اس کے دل کی مظبوطی کے لئے اور حق کی تائیید کے لئے۔
یہ حدیث صحیح ہے یا حسن ہےامام بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ(2/181) میں نقل کیا ہے۔جیسے کہ مشکٰوۃ(2/546)رقم:59054 باب الکرامات میں ہے،امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ:7/131 میں،ابن عساکرؒ نے (7/6۔1)،(13/23۔2)میں،الضیاءؒ نےالمنتقی من مسموعاۃ بمرو(ص:28۔29)میں ابن الاثیرنے اسد الغایہ (5/68) میں ذکر کیا ہے۔
اورالسلسلۃالصحیحہ(3/101)(رقم1110) میں نافع سے مروی ہے کہ یقیناً عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے کہا"یا ساریۃالجبل،یاساریۃالجبل"اے ساریہ رضی اللہ عنہ پہاڑ کو لازم پکڑ!اے ساریہ پہاڑ کو لازم پکڑ! تو اس وقت جمعہ کے دن ساریہ رضی اللہ عنہ پہاڑ کی طرف حملہ کر رہے تھے۔اور اس کے اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک مہینے کی مسافت تھی۔
جو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں،اس حدیث کی متعدد سندیں ہیں اور یہ خطبہ جمعہ دوران تھی نیند نہیں تھی۔رہا وہ کشف جو صوفیاء خیال کرتے ہیں تو وہ باطل ہےاور یہ کرامت تھی اور یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے انہیں الھام ہوا تھا،آپ کےمنہ سے سمجھ کے بغیر صادر ہو گیا تھا۔تفصیل کے لیے مراجعہ کریں،السلسلہ۔فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (ج1ص212)
محمد بن عجلان صدوق راوی ہے ، نافع سے اس کی روایت میں تدلیس کا خدشہ بھی ہو تو انہوں نے صراحت کردی ہے کہ یہ روایت انہوں نے ایاس بن معاویہ بن قرۃ ( جو کہ ثقہ راوی ہیں ) سے بھی سماعت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة (7/ 1409)
2537 - أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ [ص:1410] مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ "، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: " يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ ". فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ
لہذا جن اہل علم نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے ، ان کی بات درست محسوس ہوتی ہے ، علامہ زرکشی فرماتے ہیں :
وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق ۔حافظ قطب الدین حلبی مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔(التذكرة في الأحاديث المشتهرة = اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة (ص:166)۔علامہ سیوطی فرماتے ہیں ''وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً۔قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔(الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 211)
البانی رحمہ اللہ نے (تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات (ص: 112) میں اس کی سند کو ’’ جید حسن ‘‘ کہا ہے ، جبکہ سلسلہ صحیحہ میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے ، لہذا دیگر اسانید میں جو اضافے ہیں ، اور جن سے اہل بدعت لوگ اپنے بدعی نظریات کے ثبوت کی دلیل لیتے ہیں ، بالکل درست نہیں
بن کثیر نے اس کی سند کو جید کہا اور مختلف طریق بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ طریق ایکدوسرے کو قوت دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن عجلان کے طرق کو علامہ البانی نے حسن کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن حجر نے الاصابہ میں سن کو حسن کہا۔۔
ابن ھیثمی نے صواعق المحرقہ مین حسن کہا۔
ابن باز، صالح الفوزان، عبدالعزیز الشیخ نے فتاوی اللجنہ دائمہ میں اس کو صحیح قرار دیا۔۔
صالح العثیمن نے شرح عقیدہ واسطیہ میں اور فتاوی نور علی الدرب میں اس واقعہ کو کشف و کرامات کے طور پر تسلیم کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امین پشاوری نے فتاوی دین الخالص میں اس کو صحیح قرار دیا اورکہا کہ جو اس کو ضعیف کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك ـ(الإصابة في تمييز الصحابة (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/3 (الجزء 3 - الصفحة 5،)كشف الخفاء (العجلوني) - الصفحة أو الرقم: 2/515) المصدر: البداية والنهاية (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 7/135)السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: (3/101) 1110،)خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن۔كرامات أولياء الله عز وجل للالكائي (سنة الوفاة:418) » ذكر فضائل الصحابة وغيرهم » سياق مَا روي من كرامات أمير المؤمنين أَبِي حفص عُمَر ... رقم الحديث: 49)
علامہ ابن قیم رح اس کو "کشف" میں شمار کرتے لکھتے ہیں:
والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن .[مدارج السالکین ( 3 / 228)]
اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔
علامہ ابن قیمؒ اس واقعے کو بطور کشف رحمانی پیش کر رہے ہیں۔۔
عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك ـ(الإصابة في تمييز الصحابة (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/3 (الجزء 3 - الصفحة 5،)كشف الخفاء (العجلوني) - الصفحة أو الرقم: 2/515) المصدر: البداية والنهاية (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 7/135)السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: (3/101) 1110،)خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن۔كرامات أولياء الله عز وجل للالكائي (سنة الوفاة:418) » ذكر فضائل الصحابة وغيرهم » سياق مَا روي من كرامات أمير المؤمنين أَبِي حفص عُمَر ... رقم الحديث: 49)
امام احمد بن حنبلؒ نے اس کو فضائل صحابہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔۔ محقق نے اس کی سند کو حسن کہا اور کہا کہ علامہ ھیثمی نے اس کی سند کو صواعق المحرقہ میں حسن کہا اور علامہ ابن تیمیہؒ نے الفرقان میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔۔
ابن تیمیہؒ نےفتاوی ابن تیمیہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساریہ والے واقعے کواور دوسرے کئی واقعات کو بطور کشف تسلیم کیا اور لکھا
وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.
اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش(فتاوی ابن تیمیہ،11/318)
اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا ذکر کشف کی دلیل کے طور پر کیا
تو اتنے علماء نے اس واقعہ کو صحیح تسلیم کیا اور بطور کشف و کرامات اس سے دلیل پکڑی۔
بالفرض اگر یہ روایت ضعیف بھی ہے تب بھی بطور کشف و کرامات اس واقعہ سے دلیل لی جا سکتی ہے۔
غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
محسن اقبال
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں