صفحات

جمعہ، 7 فروری، 2014

مسئلہ قرآت خلف الامام ،غیر مقلدین اور سعودیہ کا مسلک

مسئلہ قرآت خلف امام ایک اختلافی مسئلہ ہے لیکن غیر مقلدین اس مسئلہ میں بھی لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ جو نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔

سب سے پہلے غیر مقلدین کا یہ کہنا ہی غلط ہے کہ " جو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی" کیونکہ امام بخاری رح سے لے کر آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ جو امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اس کی نماز باطل ہے۔
یہ بات میری نہیں ہے بلکہ موجودہ دور کے غیر مقلدین کے مشہور علماء اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔


غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری نے اپنی کتاب توضیح الکلام صفحہ 71پر، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے خیرالکلام کے مقدمہ میں صفحہ 14 پر اور غیر مقلدین کے شیخ الکل حافظ محمد گوندلوی نے خیر الکلام کے صفحہ 33 پہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امام بخاری سے لے کر محقق علماء اہلحدیث نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ جو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز باطل ہے۔




لیکن عوام کے سامنے فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں یہ جاہل اپنے علماء کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احناف کی نماز نہیں کیونکہ حنفی امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتے۔

اس کے علاوہ غیر مقلدین لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے سعودیہ شاہ فہد کمپلیکس کی تفسیر پیش کرتے ہیں جو حاجیوں کو مفت فراہم کی جاتی ہے۔
اس تفسیر کا ترجمہ غیر مقلدین جونا گڑھی نے کیا ہے اور اس کے حواشی صلاح الدین یوسف کے ہیں۔
اس تفسیر میں صفحہ 14 پہ لکھا ہے کہ "علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔"

لیکن غیر مقلدین کا دعوی ہے کہ کسی بھی نماز میں بھلے وہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ہو اور باجماعت نماز میں ہو جو بھی سوری فاتحہ نہیں پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔


لیکن یہی تفسیر احسن البیان غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے شائع ہوئی تواس میں علامہ ابن تیمیہ رح کا یہ قول نکال دیا گیا۔


سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے انہوں نے اس ترجمہ میں حنابلہ کا موقف پیش کیا ہے لیکن اگر آپ یہی مولانا جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کا ترجمہ دار السلام کا یا شاہ فہد کے علاوہ کسی اور متکبہ کا لیں تو اس میں علامہ ابن تیمیہ رح کا یہ قول موجود نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں عالم اہلحدیث ہیں اور ابن تیمیہ رح کے اس قول کے منکر ہیں اس لئے وہاں یہ ترجمہ نہیں ملے گا اور سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے شاہ فہد کے ترجمہ میں ان کا موقف واضح موجود ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔

اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ ذرا لگائیں فتوی سعودیہ کے علماء اور علامہ ابن تیمیہ رح کی نمازوں پہ کہ ان کی جھری نمازیں امام کے پیچھے نہیں ہوئیں۔

 

شکریہ

غلامِ خاتم النبیین ﷺ 

محسن اقبال

منگل، 4 فروری، 2014

مدت رضاعت ،امام ابو حنیفہ رح اور غیر مقلدین

غیر مقلدین امام ابو حنیفہ رح پہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو قران نہیں آتا تھا اور مدت رضاعت میں ان کا قول قرآن کے خلاف ہے۔

امام اعظم رحمتہ اﷲ علیہ کی دو روایتیں ہیں۔
ايک ڈھائی سال کی اور ايک دو سال کی۔


ديکھئے زاد المعاد لابن القیم رحمتہ اﷲ علیہ ج2ص330 بحوالہ فتح المبین ص205 اور فتوی دو سال والی روایت پر ہے ۔ ديکھئے فتح القدیر و شامی وغیرہما۔
فقہ حنفی میں بھی مدت رضاعت 2 سال ہے جو کہ امام ابو یوسف رح اور امام محمد رح کا قول ہے۔
امام ابو حنیفہ رح کا بھی ایک قول 2 سال کا ہے جو کہ ان کا آخری قول ہے اور اس بات کہ تصدیق غیر مقلدین کے علامہ ابن قیم بھی کرتے ہیں۔
علامہ ابن قیم رح عرض کرتے ہیں کہ '' امام ابو حنیفہ رھ اور امام زفر رح کا قول اڑھائی سال کا ہے اور امام ابو حنیفہ رھ کا آخری قول امام ابو یوسف رح اور امام محمد رح کے مطابق ہے (یعنی کہ 2 سال)۔
(زاد المعاد جلد 2 صفحہ 330)


امام ابو حنیفہ رح کے مسئلے کی وضاحت ابن قیم نے بھی کر دی تو غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ وہ ابن قیم رح پہ کیا فتوی لگائیں گے امام ابو حنیفہ رح کے حوالے کی وضاحت پہ؟؟؟؟


اس کے ساتھ ساتھ ابن قیم کہتے ہیں کہ امام زفر کے نزدیک بھی مدت رضاعت اڑھائی سال ہے۔۔ تو امام زفر کے بارے میں بھی کچھ عرض کریں گے یا صرف ابو حنیفہ کی ہی رٹ لگائیں گے؟؟؟

 
اگر امام ابو حنیفہ رح سے دو سال کا قول ثابت نہیں جیسا کہ غیر مقلدین کہتے ہیں تو وہ تسلیم کر لیں کہ ابن قیم نے جھوٹ بولا ہے جو کہا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا آخری قول امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے مطابق ہے۔

اعتراض تو آپ کا امام ابو حنیفہ رھ پہ ہے لیکن سعودیہ کی فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے کہ


" تو يہ معلوم ہوا كہ رضاعت ميں ہى بچے كى مصلحت و حق ہے، اور اگر بچے كو دودھ چھڑانے ميں ضرر و نقصان ہو تو دو برس سے قبل اسے دودھ چھڑانا جائز نہيں ہوگا، چنانچہ اگر مصلحت ہو اور بچے كو ضرر سے دور ركھنا مقصود ہو تو ماں كے ليے دو برس كے بعد بھى بچے كو دودھ پلانا جائز ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ اپنى كتاب " تحفۃ المودود في احكام المولود " ميں كہتے ہيں:
" ماں كے ليے بچے كو اڑھائى سال سے بھى زيادہ دودھ پلانا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 60 ).


اور یہ فتوی علامہ ابن باز، شیخ عبدالعزیز الشیخ اور شیخ صالح الفوزان کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن قیم کے نزدیک اڑھائی سال سے بھی ذیادہ دودھ پلانا جائز ہے۔
اب غیر مقلدین ذرا بتائیں کہ علامہ ابن قیم بھی اڑھائی سال کہہ رہے ہیں دودھ پلانے کے لئے تو ان پہ کیا فتوی لگے گا؟؟؟ -

آگے چلو تم تو بچے کو دودھ پلانے پہ امام ابو حنیفہ رح پہ اعتراض کر رہے ہو ذرا دیکھو علامہ شوکانی اور نواب صدیق حسن خان صاحب کیا کہتے ہیں۔


نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں کہ
” ویجوز ارضاع الکبیر ولوکان ذالحیۃ لتجویز النظر“
ترجمہ: بڑے کو دودھ پلانا بھی جائز ہے اگر وہ ڈاڑھی والا ہو، تاکہ اس دودھ پانے والی عورت کی طرف ديکھنا جائزہو جائے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن قیم بھی اسی طرف مائل تھے۔
(الدر البہیبۃ ص158مع الروضۃ الندیۃ)


علامہ شوکانی نے ایک کتاب فقہ پہ لکھی جس کا نام ''الدر البھیہ'' ہے۔
اس کا اردو ترجمہ ''فقہ الحدیث'' کے نام سے عمران ایوب لاہوری نے کیا ہے اور تحقیق علامہ البانی کی ہے۔
تصدیق موجودہ دور کے غیر مقلد اکابر عالم مبشر احمد ربانی اور عبدالجبار شاکرکی ہے۔
غیر مقلدین تو بچوں کو دودھ پلانے پہ فتوے لگا رہے ہیں لیکن ان کے علامہ شوکانی تو بڑی عمر کے آدمی کو بھی دودھ پلانے کو جائز کہتے ہیں بھلے اس کی داڑھی ہو اور اور یہ اہلحدیث علماء اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔
( فقہ اہلحدیث ، صفحہ 236)


تو ان غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ جو فتوی وہ احناف اور امام ابو حنیفہ رح پہ لگاتے ہیں وہی اپنے ان اکابر علماء پہ بھی لگا دیں۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

پیر، 3 فروری، 2014

کیا فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے؟ غیر مقلدین کا دھوکہ

غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

سب سے پہلی بات کہ یہ فتوی ان غیر مقلدین نے شیعہ سے چوری کیا ہے۔
شیعہ یہ الزام اہلسنت پہ لگاتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک متعہ جائز ہے جس کو غیر مقلدین احناف اور فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں آگے پھیلا رہے ہیں۔


غیر مقلدین کی اطلاع کے لئے سعودیہ کے مشہور محدث علامہ ابن بازؒ کے نزدیک بھی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے اور یہ متعہ نہیں کہلاتا۔
علامہ ابن بازؒ کا یہ فتوی ان کی کتاب ـ(مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185) پر واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔


علامہ ابن بازؒ کے علاوہ کئی اکابرین کے نزدیک طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے۔


امام نووی الشافعی کہتے ہیں:
وبه قال القاضي أبو بكر الباقلاني قال القاضي وأجمعوا على أن من نكح نكاحا مطلقا ونيته أن لا يمكث معها الا مدة نواها فنكاحه صحيح حلال وليس نكاح متعة وإنما نكاح المتعة ما وقع بالشرط المذكور
اور یہ وہ ہے جو قاضی ابو بکر الباقلانی نے کہا ہے۔ قاضی کہتے ہیں:'اس بات پر اجماع" ہے کہ جو بھی مطلق نکاح(نکاح دائمی) کرتا ہے لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے ساتھ صرف کچھ مدت کے لیے ہی رہے گا، تو بلاشبہ ایسا نکاح صحیح اور حلال ہے اور یہ نکاح المتعہ (کی طرح حرام) نہیں ہے کیونکہ نکاح المتعہ میں پہلے سے ہی یہ شرط مذکور ہوتی ہے (کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جائے گی)۔اور امام مالک ؒکے نزدیک یہ اخلاق میں سے نہیں ہے اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک یہ متعہ ہی ہے۔
( کتاب المنہاج شرح مسلم، جلد 9 صفحہ 182 )



امام اہلسنت ابن قدامہ الحنبلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
إن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر، أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم إلا الأوزاعي، قال: هو نكاح متعة. والصحيح أنه لا بأس به
اگر وہ عورت سے (مدت) کی کوئی شرط کیے بغیر نکاح کرتا ہے لیکن دل میں نیت ہے کہ اُسے ایک ماہ کے بعد طلاق دے دے گا یا پھر اُس علاقے یا ملک میں اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد طلاق دے دے گا (اور پھر آگے روانہ ہو جائے گا) تو پھر اہل علم کے مطابق بلاشبہ ایسا نکاح بالکل صحیح ہے ، سوائے الاوزاعی کے جنہوں نے اسے عقد المتعہ ہی جانا ہے لیکن صحیح یہی رائے ہے(جو اہل علم کی ہے) کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
( المغنی، جلد 7، صفحہ 573 )


سعودی ِعرب کے سابق مفتی ِاعظم شیخ ابن باز فرماتے ہیں:

[شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟
[شیخ ابن باز کا جواب]: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔
اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔ (مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185، فتاوی اسلامیہ، جلد 3 صفحہ 264)


غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے غیر مقلدین کی تصدیق شدہ کتاب ''کتاب النکاح'' میں بھی سید سابقؒ کے حوالے سے طلاق کی نیت سے نکاح کو صحیح مانا گیا ہے۔
اس کتاب کو عمران ایوب لاہوری نے لکھا ہے اور اس میں علامہ البانیؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے اور غیر مقلدین کے مکتبہ دارالسلام نے اس کتاب کو چھاپا ہے۔

 
کیا غیر مقلدین علامہ ابن بازؒ، علامہ البانیؒ اور عمران ایوب لاہوری پہ یہ فتوی لگائیں گے کہ ان علماء کے نزدیک بھی احناف کی طرح متعہ جائز ہے؟ 


یہ تھی غیرمقلدین کے جاہلانہ الزام کی حقیقت اور اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں تو احناف کے ساتھ ساتھ ان اکابرین پہ بھی متعہ کے جائز کہنے کا فتوی لگائیں ۔

شکریہ
غلامِ خاتم النبیینﷺ
محسن اقبال

کیا ھدایہ احناف کے نزدیک قرآن کی طرح ہے؟



جس غیر مقلد نے یہ بات اڑائی ہے کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہدایہ قرآن کی طرح ہے، اس نے غالباً حکیم صادق سیالکوٹی غیر مقلد کی کتاب سبیل الرسول سے یہ بات نقل کی ہے، اس لئے کہ یہ جھوٹ سبیل الرسول والے ہی نے بولا ہے، وہ لکھتا ہے:

جس طرح قرآن کے بعد اصح الکتاب، ) 1)حکیم صادق سیالکوٹی سبیل الرسول کے مصنف نے خدا کا ادنی خوف رکھے بغیر اتنا بڑا جھوٹ گڑھا ہے، ہدایہ کوئی نایاب کتاب نہیں ہے، ہر عربی مدرسہ میں اس کا ایک نہیں کئی نسخہ موجود ملے گا۔ کسی غیر مقلد عالم کا آپ ہاتھ پکڑیئے اور کسی بھی آس پاس کے عربی مدرسہ میں لیجا کر اس کے ہاتھ میں ہدایہ دے دیجئے اور اس سے کہئے کہ دکھلایہ بات ہدایہ میں کہاں لکھی ہے، وہ ہدایہ کے اوراق ساری زندگی الٹتا پلٹتا رہے گا مگر ہدایہ میں اسے یہ بات نظر نہیں آئے گی، غیر مقلدین علماءخود تو جھوٹ بولتے ہی ہیں افسوس یہ کہ وہ اپنے عوام کو بھی جھوٹ کی راہ پر لگاتے ہیں۔

حکیم صادق سیالکوٹی نے اپنی کتاب سبیل الرسول میں مولانا یوسف جے پوری کی کتاب حقیقة الفقہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے، حقیقة الفقہ کی باتیں کبھی حوالہ دیکر اور کبھی بلا حوالہ دیئے ہوئے اس کتاب میں نقل کرتے رہتے ہیں، یہ بات بھی انہوں نے غالباً حقیقة الفقہ ہی سے اڑائی ہے ، مگر حقیقیة الفقہ والے نے ہدایہ کا نہیں بلکہ مقدمہ ہدایہ کا حوالہ دیا ہے،ہمارے پاس جو ہدایہ ہے ہم نے اس کا مقدمہ دیکھا ہے ہمیں یہ بات ہدایہ کے مقدمہ میں بھی نظر نہیں آئی، یقینا یوسف جے پوری نے بھی جھوٹ بولا ہے، یا معلوم نہیں اس کے نزدیک ہدایہ کے مقدمہ سے کیا مراد ہے (1)

یہ ہے حکیم صاحب غیر مقلد کی قابلیت کا ادنی نمونہ اصح الکتاب فرما رہے ہیں، اور اس قابلیت کے بل بوتہ پر وہ کتاب و سنت سمجھنے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔ صحیح بخاری ہے، اسی طرح احناف میں ہدایہ کا درجہ ہے کہ ہدایہ ہی میں لکھا ہے کہ ان الھدایة کالقرآن کہ ہدایہ مثل قرآن ہے“ ص۸ ۲۲

یہ ہدایہ ہے جس کی شان میں یہ شعر مقدمہ ہدایہ میں منقول ہے۔

انالھدایة کا لقرآن قد نسخت ماصنفو اقبلھا فی الشرع من کتب

ترجمہ: ہدایہ قرآن کی طرح ہے جس نے تمام پہلی کتابوں کو جو شروع میں لکھی گئیں منسوخ کر دیا ہی (حقیقة الفقہ ص ۴ ۵ ۱)

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس جو ہدایہ ہے اس کے مقدمہ میں مجھے یہ شعر کہیں نظر نہیں آیا، اب اگر مولانا یوسف کی یہ بات یا یہ حوالہ صحیح ہے تو ہدایہ کے مقدمہ میں کوئی غیر مقلد عالم یہ شعر دکھلائے، ورنہ اﷲ سے ڈرے اور دین کے نام جھوٹ بول بول کر بے دینی کا کام نہ کرے۔

آپ کا جواب تو پورا ہو گیا مگر مجھے ناظرین کی آنکھیں کھولنے کے لئے غیر مقلدین علماءکی قابلیت کو بھی ظاہرکرنا ہے۔

غالباً مقدمہ ہدایہ سے مراد ہے ہدایہ کے شروع میں ہدایہ کتاب کی تالیف کے صدیوں بعد مولانا عبد الحئی لکھنوی کی وہ تحریر ہے جس میں انہوں نے ہدایہ اور اس کے مصنف کے بارے میں اپنی معلومات جمع کی ہیں اور اس کو ہدایہ کے ساتھ ناشرین نے شائع کیا ہے، یہ شعر مولانا لکھنوی کی اس تحریر میں ہے، اگر ان غیر مقلدین کی نیت صاف ہوتی تو اس کو واضح کرتے کہ مقدمہ ہدایہ سے مراد مولانا لکھنوی کی تحریر ہے۔ بہر حال یوسف جے پوری کی پوری بات سنئے فرماتے ہیں:

حکیم صادق سیالکوٹی نے صرف اتنا نقل کیا ہے۔ان الھدایة کالقرآن اور ترجمہ کیا ہے کہ ہدایہ مثل قرآن کے ہے۔

 

اور مولانا یوسف جے پوری نے پورا شعر نقل کیا ہے اور ترجمہ کیا ہے :

ہدایہ قرآن کی طرح ہے جس نے تمام پہلی کتابوں کو جو شروع میں لکھی گئیں منسوخ کر دیا ہے۔

قطع نظر اس کے کہ یہ شعر کس کا ہے اور کہاں لکھا ہے آیئے ہم دیکھں کہ اس شعر کے ترجمہ میں غیر مقلدین کے یہ مجتہدین علماءکیساغچہ کھا رہے ہیں، نہ تو حکیم صادق سیالکوٹی نے شعر کو سمجھا اور نہ مولانا یوسف جے پوری نے شعر کا مطلب و مفہوم جانا، شعر کا صحیح اور با محاورہ ترجمہ یہ ہے :

بیشک ہدایہ نے قرآن کی طرح پہلے کی تمام فقہی کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے۔

شعر کہنے والے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح قرآن نے گزشتہ تمام آسمانی کتابوں کو اپنی فصاحت و بلاغت اور اسرار و حکم اور آخری کتاب ہونے کی وجہ سے منسوخ کر دیا ہے اسی طرح سے ہدایہ اپنے عمدہ اسلوب تحریر، عبارت کی جامعیت و بلاغت و جزالت کی وجہ سے پہلے کی تمام فقہی کتابوں سے فائق ہے، اگر صرف ہدایہ کو پڑھ لیا جائے تو فقہ کی کسی اور کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

شاعر کا مقصد تو یہ ہے، جس میں کسی طرح کی معنوی قباحت نہیں، یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے بخاری کی شرح فتح الباری کے بارے میں کوئی کہے کہ جس طرح قرآن سے بقیہ آسمانی کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں کسی اور کتاب کی اب حاجت نہیں اسی طرح فتح الباری نے حدیث کی تمام شروح کو منسوخ کر دیا ہے اس کتاب کے بعد بخاری کی کسی اور شرح کی ضرورت نہیں رہتی، فتح الباری کے بارے میں اس کا اظہار خیال زیادہ سے زیادہ کسی اور کو مبالغہ نظر آئے گا مگر معنوی طور پر یہ بات ایسی نہیں ہے کہ کسی کو اس پر اعتراض کی گنجائش ہو، شاعر نے ہدایہ کو قرآن کی طرح نہیں کہا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ قرآن نے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کو منسوخ کر دیا اسی طرح ہدایہ نے دوسری فقہی کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے یعنی ہدایہ کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے، اگر کسیکا یہ خیال ہو تو آپ کو یا کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے مگر غیر مقلدین مجتہدین شعر کا غلط ترجمہ کر کے بات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔(۱) اہل علم جان رہے ہیں کہ شعر میں الھدایة یہ ان کا اسم ہے اور کالقرآن سے آخر تک سب مل ملا کر ان کی خبر ہے۔ اور پورے شعر کا ترجمہ صحیح وہ ہے جو میں نے کیا ہے ،مگر غیر مقلدین قابل لوگ ان الھدایة کو مبتدا بنا کر کالقرآن کو خبر بنا دیتے ہیں اور یہیں بات کوپوری کر رہے ہیں اور ترجمہ کرتے ہیں کہ ہدایہ قرآن کی طرح ہے ،واہ رے قابلیت اگر جملہ یہیں پر مکمل ہوتا تو پھر ضروری تھا کہ کالقرآن کے بعد الذی یا التی اسم موصول لایا جاتا۔بلا اس کی عبارت درست نہیں ہو سکتی تھی۔

اور کمال تو مولانا یوسف جے پوری کا ہے فی الشرع کا ترجمہ آپ کرتے ہیں شروع میں ایسے پاگلوں کو جے پورسے لا کر آکرہ کے پاگل خانہ میں کیوں نہیں رکھ دیا گیا ۔

مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے شعر کا ترجمہ صحیح کیا ہے، ان کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ہدایہ نے قرآن مجید کی طرح ان کتابوں کو منسوخ کر دیا جو اس کے پہلے لوگوں نے تصنیف کی تھیں، المقالہ الحیسنی مولانا نے جاہل یر مقلدین کی طرح، ہدایہ قرآن کی طرح ہے“ ترجمہ نہیں کیا ہے۔

بھلا بتلائیے جس کو عربی کے ایک معمولی شعر کا ترجمہ کرنے کا سیلقہ نہ ہو ۔جو عربی کی معمولی عبارت کا صحیح ترجمہ نہ کر سکتا ہو اور نہ سمجھ سکتا ہو اس کو شوق ہوتا ہے ہدایہ کے خلاف منہ زوری دکھلانے کا ۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔

ابھی حقیقہ الفتہ کتاب جب میں نے دیکھی تو اس میں عربی کی اس عبارت پر نظر پڑ گئی والا ولی ان یکون الشرع اسما للدین فلا یحتاج الی التاویل (۵ ۲ ۱ص)اور اس کا ترجمہ یہ جے پوری قابل صاحب کرتے ہیں۔ شرع نام ہے دین کا جو تاویل کا محتاج نہیں ۔اہل علم داد دین اس ترجمہ کی اور جامعہ سلفہ والے مٹھائی تقسیم کریں قابلیت کے اس شاہکار نمونہ پر ۔ چونکہ غیر مقلدین کو حقیقہ الفقہ پر بڑا ناز ہے اور اس کا موئف جو جاہل محقق تھا اس کو یہ لوگ بڑا محقق سمجھتے ہیں، اس لئے ذرا اس کی قابلیت کا ایک نمونہ اور اہل علم ملا حظہ فرمائیں مگر شرط یہ ہے کہ قہقہہ نہ لگائیں ،تدریب الراوی سے امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے۔ وکان یقول وایاکم والا خذبالحدیث الذی اتا کم من بلا داھل الرای الابعد التفتیش (۱)

یہ ہے الابعد التفتیش کا شاندار شاہکار ترجمہ ،متبنی ہوتا تو یوسف جے پوری کی قابلیت پر پورا ایک قصیدہ کہہ دیتا ۔

اس کئ علاوہ خود غیر مقلدین کے عالم محمد داؤد ارشد صاحب نے حکیم صادق سیالکوٹی کی کتاب سبیل الرسول کی تخریج کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کو ھدایہ کے مسائل سے بری الذمہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام صاحبؒ سے صدیوں بعد لکھی گئی۔( سبیل الرسول پر ایک نظر، صفحہ 194)



مطلب یہ کہ ان کے نزدیک اگر ھدایہ کا کوئی مسئلہ قران اور حدیث کے خلاف بھی ہو تو بھی امام ابو حنیفہ رح پہ اعتراض کرنا جائز نہیں وہ ان تمام مسائل سے بری ہیں

میں کیا بتا ﺅں جب میں غیر مقلدین مجتہدین کی قابلیتوں کے نمونے دیکھتا ہوں تو حیران ہو کر سوچتا ہو کہ جہل مرکب کے یہ گرفتار یے آخر کب اپنی اوقات پہنچانیں گے۔


جس بات پر غیر مقلدین احناف پہ اعتراض کر رہے ہیں بلکل اسی طرح کی بات تہذہب النووی میں سنن ابو داؤد کی نسبت لکھی گئی ہے کہ ''جب کتاب ابو داؤد تصنیف ہوئی تو اہلحدیثوں کے واسطے وہ مثل قران تھی''
اس اعتراض کا جواب غیر مقلدین کے عالم ابوالقاسم سیف بنارسی نے اپنی کتاب دفاع صحیح بخاری صفحہ 757 پر دیا ہے اور اس کا دفاع بھی کیا ہے۔۔۔ کیا غیر مقلدین اپنے عالم پر فتوی لگائیں گے؟؟


-----------------------------------------------------

(۱) عوام ناظرین کی خاطر اس کا صحیح ترجمہ نقل کیا جا رہا ہے۔یعنی امام شافعی فرماتے تھے کہ اہل الرائے کے شہروں سے جو حدیث آئے اس کو چھان بین کر کے ہی لینا ۔اور اس کا ترجمہ یہ کیا ہے ۔کوئی حدیث بھی عراق سے آوے اور اس کی اصل حجاز سے نہ ہو تو نہ قبول کی جاوے اگر چہ صحیح ہو نہیں چاہتا ہوں مگر خیر خواہی متنبی تیری ۴ ۳ ۱ص

------------------------------------------------------

ایسے لوگ امت کو گمراہی کی کس خندق و کھائی میں ڈالیں گے ،آقائے دو جہاں کی پیشنگوئی آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جاہل دین کے ٹھیکہ دار بن گئے ہیںانھوں نے حرام کی تمیز اٹھا دی ہے ۔ضلوافاضلو اکا پورا نقشہ آج نگاہوں کے سامنے ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ہدایہ میں یا ہدایہ کے مقدمہ میں مذکورہ بالا شعر یا یہ بات کہ ہدایہ قرآن کی طرح ہے کہیں نہیں ہے اگر کسی کتاب میںیہ شعر مذکور بھی ہے تو اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو غیر مقلدین بیان کرتے ہیں اس شعر میں کسی طرح کی کوئی معنوی قباہت نہیں ہے جیسا کہ عرض کیا گیا