صفحات

ہفتہ، 24 جنوری، 2015

کتاب الحیل کی امام ابو حنیفہؒ کی طرف نسبت اور غیر مقلدین کے ایک اعتراض کا جواب


ائمہ احناف نے کتاب الحیل کی امام ابوحنیفہ یاامام محمد کی جانب نسبت کی تردید کی ہے۔ظاہرسی بات ہے کہ صاحب البیت ادری بمافیہ کے اصول کے مطابق امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں حالات وواقعات میں وہی باتیں زیادہ قابل اعتبار ہوں گی جوائمہ احناف سے منقول ہوں گی کیونکہ ان کی پوری زندگی امام ابوحنیفہ کے حالات واقعات اورفقہی اجتہادات کی تلاش وتحقیق میں گزری ہے۔حافظ ذہبی نے امام محمدبن الحسن کے مناقب پر ایک خاص کتاب لکھی ہے اس میں وہ امام طحاوی کی سند سے نقل کرتے ہیں۔
الطحاوی، سمعت احمدبن ابی عمران،یقول:قال محمدبن سماعۃ،سمعت محمدبن الحسن یقولـ:ھذاالکتاب -یعنی کتاب الحیل -لیس من کتبنا،انماالقی فیھا،قال ابن ابی عمران،انماوضعہ اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ
(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ،ص54)

محمد بن سماعہ کہتے ہیں کہ میں نے محمدبن الحسن سے کہاوہ کہتے تھے ’’یہ کتاب یعنی ’کتاب الحیل‘ہماری کتابوں*میں سے نہیں*ہے۔ اس میںبیرونی عناصر کی کارفرمائی ہے‘‘۔ابن ابی عمران کہتے ہیں کہ کتاب الحیل اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے وضع کی ہے۔یہ سند حسن لذاتہ سے کسی درجہ میں کم نہیں*ہے۔ کیونکہ اس کے تمام روات ثقہ اورصدوق ہیں۔

اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ امام محمد بن الحسن جو امام ابوحنیفہ کے براہ راست شاگرد اوران کے علوم کے شارح وناشر ہیں جنہوںنے ان کی فقہ کو مقبول عام بنانےمیںبہت کوشش کی ۔ان سےزیادہ امام ابوحنیفہ کے حالات سے کون واقف ہوسکتاہے۔ وہ صاف سیدھی یہ بات کہتے ہیں کتاب الحیل ہماری کتابوں*میں سے نہیں ہے۔اس میں بیرونی عناصر کی کارفرمائی ہے۔ اگرامام محمد یہ کہتے ہیں کہ کتاب الحیل میری تصنف نہیں ہے توایک علیحدہ بات ہوتی وہ فقہ حنفی کے ائمہ یعنی امام ابوحنیفہ،امام زفر،امام ابویوسف وغیرہ سبھی سے اس کی نفی کررہے ہیں*کہ یہ ہماری کتابوں*میں سے نہیں ہے۔

اس کی تائید اس قول سے بھی ہوتی ہے جو مشہور حنفی فقیہہ اورمحدث عبدالقادرالقرشی نے( الجواہرالمضیئۃ 3/576)میں ا بوسلیمان جوزجانی کے حوالہ سے نقل کیاہے۔امام ابوسلیمان جوزجانی کہتے ہیں۔
کذبواعلی محمد،لیس لہ کتاب الحیل وانماکتاب الحیل لوراق‘‘
لوگ امام محمد کے سلسلے میں جھوٹ کہتے ہیں۔کتاب الحیل ان کی تصنیف نہیں*ہے ۔کتاب الحیل کسی وراق(نقل نویس)کی ہے۔
کتاب الحیل کی نسبت چونکہ امام محمد کی جانب بھی بعض لوگوں نے کی ہے لہذا ابوسلیمان جوزجانی جوامام محمد کے خاص شاگرد ہیں۔ انہوں نے کتاب الحیل کی امام محمد کی کتاب ہونے کی نفی کی ہے۔
جب کہ مشہورحنفی فقیہہ سرخسی نے ان کا مزید یہ قول نقل کیاہے
ان الجھال ینسبون علماءنارحمھم اللہ الی ذلک علی سبیل التعییر،فکیف یظن بمحمدرحمہاللہ انہ سمی شیئاًمن تصانیفہ بھذاالاسم لیکون ذلک عوناًللجھال علی مایتقولون(المبسوط 30/290)

جاہل افراد ہمارے علمائے کی جانب کتاب الحیل کی نسبت شرم دلانے کیلئے کرتے ہیں لیکن امام محمد رحمہ اللہ سے کیسے گمان رکھاجاسکتاہے کہ انہوں نے اپنی تصانیف میں اس طرح کی کوئی تصنیف کی ہوگی تاکہ جاہلین کی مزید حوصلہ افزائی ہو۔

ابن تیمیہ اورابن قیم کی کتاب الحیل کی تردید
یہاں تک ہماری بات اس موضوع پر تھی کہ امام ابوحنیفہ کی جانب کتاب الحیل کی نسبت درست نہیں ہے۔ لیکن ان سب سے قطع نظرکچھ لوگوں کی افتاد طبع ایسی ہے کہ ان کو کتنی بھی محقق اورمدلل بات کہہ دو لیکن جب تک ابن تیمیہ یاابن قیم رحمھمااللہ کا کوئی نقل نہ کردیاجائے ان کو’’ اطمینان قلب‘‘حاصل نہیں ہوتا۔ایسے لوگوں کیلئے بھی ہمارے پاس خاصامواد موجود ہے جس سے ان کی ضیافت کی جاسکے۔
ابن تیمیہ کھتے ہیں۔

ولایجوز ان ینسب الامر بھذہ الحیل ھی محرمۃ بالاتفاق اوھی کفر،الی احدمن الائمۃ،ومن ینسب ذلک الی احمد منھم فھو مخطی فی ذلک،جاھل باصول الفقہاء وان کانت الحیلۃ قد تنفذ علی اصل بعضھم بحیث لایبطلھا علی صاحبھا،فان الامر بالحیلۃ شی وعدم ابطالھا بمن یفعلھاشیء آخر،ولایلزم من کون الفقیہ لایبطلھا ان یبیحھا،فان کثیرا من العقود یحرمھا الفقیہ،ثم لایبطلھا.............................. ................وانماغرضناھناان ھذہ الحیلۃ ھی محرمۃ فی نفسھما لایجوز ان ینسب الی امام انہ امربھا،فان ذلک قدح فی امامتہ،وذلک قدح فی الامۃ حیث ائمتوا بمن لایصلح للامامۃ وفی ذلک نسبۃ لبعض الائمۃ الی تکفیر اوتفسیق وھذا غیرجائز(الدلیل علی بطلان التحلیل ص170)
اوریہ جائز نہیں ہے کہ وہ حیلے جو متفقہ طورپر حرام ہیں یاکفریہ ہیں ان کی نسبت ائمہ مسلمین میں سے کسی کی جانب کی جائے اورجوکوئی کسی امام کی جانب ان حیلوں کی نسبت کرتاہے تو وہ اس سلسلے میں خطاوارہے فقہاء کے اصول سے جاہل ہے ۔اگرچہ یہ حیلے ان میں سے بعض کے اصول پر کارگرہوتے ہیں اس طورپر کہ ان حیلوں کو اختیار کرنے والے کے امر کوباطل نہیں کیاجاتالیکن کسی حیلہ کاحکم دینا الگ شے ہے اورکسی حیلہ کو باطل نہ قراردینادوسری بات ہے اورکسی فقیہ کے ان حیلوںکوباطل نہ قراردینے سے یہ لازم نہیں آتاکہ وہ اس کو جائز بھی کہتاہے۔چونکہ بہت سارے لین دین کے ایسے معاملات ہیں جس کو فقیہ حرام قراردیتاہے پھر اس کوباطل نہیں کہتا....................ہماری غرض یہ ہے کہ حرام حیلوں کی نسبت کسی امام کی طرف جائز نہیں ہے اس طورپر کہ اس امام نے اس کے کرنے کا حکم دیاہوکیونکہ یہ بات اس کی امامت میں بٹہ لگانے والی ہےاوراسی کے ساتھ یہ چیز امت کی شان میں بھی بٹہ لگاتی ہے کہ انہوںنے ایسے لوگوںکو اپناامام بنایا جوامامت کے لائق نہیں تھے ۔علاوہ ازیں اس میں بعض ائمہ کو کی جانب تکفیر یاتفسیق کی نسبت ہوتی ہےاوریہ جائز نہیں ہے۔

پھراسی بات کو تھوڑے آب وتاب کے ساتھ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں بیان کیاہے ۔

والمقصود ان ھذہ الحیل لاتجوز ان تنسب الی امام،فان ذلک قدح فی امامتہ،وذلک یتضمن القدح فی الامۃ حیث ائتمت بمن لایصلح للامامۃ،وفی ذلک نسبۃ لبعض الائمۃ الی تکفیر اوتفسیق وھذاغیرجائز،ولوفرض انہ حکی عن واحد من الائمۃ بعض ھذہ الحیل المجمع علی تحریمھا،فاما ان تکون الحکایۃ باطلۃ ،اویکون الحاکی لم یضبط لفظہ،فاشتبہ علیہ فتواہ بنفوذھا بفتواہ باباحتھا مع بعد مابینھما،ولوفرض وقوعھا منہ فی وقت مافلابدان یکون قد رجع عن ذلک،وان لم یحمل الامر علی ذلک لزم القدح فی الامام ،وفی جماعۃ المسلمین الموتمنین بہ ،وکلاھماغیرجائز(اعلام الموقعین3/233)
خلاصہ کلام یہ کہ ان حیلوںکی نسبت کسی بھی امام کی جانب درست نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی امامت کی شان میں بٹہ لگاناہے اوراس سے امت کی شان میں بھی بٹہ لگتاہے کہ انہوںنے ایسے لوگون کو اپنامقتدابنایا جو امامت کے اہل نہیں تھے اوراس میں بعض ائمہ کی تکفیر یاتفسیق ہوتی ہے جو کہ جائز نہیں ہےاوراگرمان لیاجائے کہ ائمہ میں سے کسی میں کسی سے متفقہ طورپر حرام حیلوںمیں سے کوئی حیلہ منقول ہے تواس کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں یاتو وہ نقل باطل ہو یانقل کرنے والے نے الفاظ ٹھیک سے محفوظ نہ کئے ہوں اوراس نےنفاذ کافتویٰ جواز کے فتویٰ میں بدل دیاہوحالانکہ دونوں میں بہت فرق ہے اوراگریہ مان بھی لیاجائے کہ کسی امام نے کسی وقت میں کسی ایسے حرام حیلہ کو جائز کہاہوتوبھی یہ ضروری ہے کہ اس نے بعد میں اس سےرجوع کرلیا ہو اوراگریہ شقیں نہ مانی جائیں تو اس سے امامت کی شان میں بٹہ لگاتااورمسلمانوں*کی جماعت پر بٹہ لگتاہے اور یہ دونوں جائز نہیں ہے۔

کتاب الحیل کی امام ابوحنیفہ کی جانب نسبت کیوںہوئی؟
جو لوگ کسی چیز میں شہرت رکھتے ہیں تو اس کی جانب اس تعلق سے بے بنیاد اورعجیب وغریب کہانیاںمنسوب کردی جاتی ہیں۔ حاتم طائی کانام سخاوت میں مشہور ہے لیکن دیکھئے کیسے کیسے عجیب وغریب افسانے اس کے نام منسوب ہیں۔اشعب بخالت میں مشہور ہے تواس کی جانب بخالت کی عجیب وغریب داستانیں زبان زد عام ہیں۔رستم بہادری میں مشہور ہے تودیکھئے اس کی جانب فرودی نے پوراشاہنامہ ہی لکھ مارا جس میں خیالی واقعات ان کی جانب منسوب کردیئے۔اسی طرح امام ابوحنیفہ کی ذکاوت وذہانت اورفطانت سے مشکل مسائل کی عقدہ کشائی روزروشن کی طرح واضح ہے ۔مشکل مسائل کے حل میں ان کے تدبیریں اتنی نازک اوردقیق ہوتی ہیں عام آدمی کی نگاہ وہاں تک پہنچنی مشکل ہے ۔اگروقت کی تنگی کا خیال نہ ہوتا تومیں دوتین مثالیں بھی پیش کرتا جس سے واضح ہوتاکہ مشکل مسائل کے حل میں امام ابوحنیفہ کی ذہانت وفطانت کس طرح گل کترتی تھی۔ان کی یہی شہرت ان کیلئے بلائے بے درماں بن گئی اوریہی وجہ ہے کہ ان کے دور کے اوربعد کے ادوار کے لوگوں*نے متفقہ طورپر حرام اورکفریہ حیلے حوالے بھی ان کی جانب منسوب کردیا۔امام جوزجانی نے بھی کہاکہ وہ کسی نقل نویس کاکارنامہ تھا ۔آج بھی ایساہوتاہےکہ مشہور مصنف کے نام سے جعلی کتابیں چھاپ دی جاتی ہیں تاکہ زیادہ بکیں گی۔ یہی حال امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کتاب الحیل کا ہے جس میں امام ابوحنیفہ کی جانب حرام حیلوںپر مشتمل کتاب کی نسبت کردی گئی ۔

اس کےعلاوہ یہ بات واضح رہے کہ بعض فرقے ایسے بھی رہے ہیں جو گمراہ تھے لیکن فرو ع میں وہ فقہ حنفی پرعمل پیراتھے۔یہ عین ممکن ہے کہ جس طرح عقائد میں انہوں*نے بعض گمراہ کن عقائد کی نسبت امام ابوحنیفہ کی جانب کردی تاکہ ان کے کفریہ عقائد کیلئے ڈھال میسر آسکے۔ یہ بھی غیرممکن نہیں کہ انہوں*نے ہی بعض حرام حیلوں کو امام ابوحنیفہؒ کی جانب منسوب کردیاہو تاکہ ان کیلئے پردہ پوشی ہوسکے اورکوئی ان پر اعتراض نہ کرسکے۔جیسے خلق قرآن کاعقیدہ امام ابوحنیفہؒ اس سے قطعاًبری ہیں لیکن کچھ لوگوں نے بشرالمریسی اوراحمد بن ابی دائود وغیرہ معتزلیوںنے خلق قرآن کا عقیدہ امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کردیاتاکہ ان کیلئے ڈھال مہیاہوسکے۔حیلوں کی کتاب میں بھی یہی بات ہوسکتی ہےکسی نے امام ابوحنیفہؒ کی جانب منسوب کردیاہو۔

بشکریہ
محترم جمشید بھائی۔۔


امام بخاریؒ کا حوالہ اور امام ابو حنیفہؒ پہ اعتراض کا جواب غیر مقلدین کے گھر سے


غیر مقلدین نے امام بخاریؒ کا حوالہ دیا کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کو مرجئہ فرقہ میں شمار کرتے ہیں لیکن اسی کتاب کے حاشیہ میں حاشیہ نگار نے اس کا جواب دے دیا ہے کہ '' نعیم بن حمادؒ امام ابو حنیفہؒ پہ طعن کرتے تھے اور ان کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جتنی بھی روایات ہیں وہ سب جھوٹ ہیں، امام یحیٰ بن معین کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ حدیث میں ثقہ تھے''( تاریخ الکبیر،حاشیہ صفحہ 81،جلد8) 

تو حاشیہ نگار نے امام بخاریؒ کے اعتراض کی مکمل وضاحت کر دی۔ 

اس کے علاوہ غیر مقلدین کے مشہور عالم ابراہیم میر سیالکوٹیؒ لکھتے ہیں کہ ''امام ابو حنیفہؒ کو مرجئی کہنا ان پہ بہتان ہے اور امام بخاریؒ کے اعتراض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نعیم بن حمادؒ سنت کی تقویت میں حدیثیں بنالیتے تھے اور امام ابو حنیفہؒ کی عیب گوئی میں جھوٹی حکایات بناتے تھے جو کہ سب جھوٹی ہیں، نعیم بن حمادؒ کی شخصیت ایسی نہیں کہ ان کی روایات کی بناء پہ امام ابو حنیفہؒ جیسے بزرگ کی بدگوئی کی جائے۔''(تاریخ اہلحدیث، صفحہ ،62،63،64) 

تو امام بخاریؒ کے اعتراض کا جواب خود غیر مقلدین کے عالم نے دےد یا۔


امام اعظم ابو حنیفہؒ کا خواب میں اللہ کا دیدار کرنا اور غیر مقلدین کے اعتراض کا جواب



در مختارمیں امام ابو حنیفہؒ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ امام صاحبؒ نے اللہ کی خواب میں زیارت کی اور اس واقعے کو بنیاد بنا کر غیر مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ حنفیوں نےغلو کیا ہے ،حنفی جھوٹے ہیں اور امام ابو حنیفہؒ بھی جھوٹے ہیں کیونکہ اللہ کی خواب میں زیارت نہیں ہو سکتی ، جو یہ دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ 
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا اللہ کی خواب میں زیارت کا واقعہ صرف احناف نے نقل نہیں کیا بلکہ یہ واقعہ شیخ یوسف صالح الشافعیؒ نے اپنی کتاب ''عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان'' میں نقل کیا ہے جو کہ شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
کیا غیر مقلدین یہ اعتراف کریں گے کہ شیخ یوسف صالح شافعی ؒ بھی غلو کر رہے ہیں اور یہ واقعہ نقل کرنے کی وجہ سے کذاب ہیں؟؟؟ 

اس کے علاوہ امام احمد بن حنبلؒ کا اللہ کی خواب میں زیارت کا واقعہ امام ابن جوزیؒ کی کتاب '' مناقب امام احمد بن حنبل'' میں اور امام ذہبیؒ کی کتاب ''سیر اعلام النبلاء'' میں ذکر کیا گیا ہے۔اب غیر مقلدین سےسوال ہے کہ کیا امام احمد بن حنبلؒ بھی کذاب ہیں؟؟ اور ان کا واقعہ نقل کرنیوالے امام ابن جوزیؒ اور امام ذہبیؒ بھی کذاب ہیں؟؟

رہی بات کہ اللہ کی خواب میں زیارت ہو سکتی ہے یا نہیں تو غیر مقلدین اگر اپنےہی مستند علماء کی کتابیں پڑھ لیتے تو اس بات کا انکار نہیں کرتے۔

غیر مقلدین کے شیخ الکل نذیر حسین دہلوی فتاوی نذیریہ میں کہتے ہیں کہ''اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا ہے تو یہ جائز ہے ،''(فتاوی نذیریہ،جلد 1 صفحہ 61) 
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نقل کرتے ہیں کہ ''جس نے خواب میں الله تعالی کو دیکها تو دیکهنے والا اپنی حالت کے مطابق الله تعالی کو کسی صورت میں دیکهے گا ، اگر وه آدمی نیک هے تو الله تعالی کو اچهی صورت میں دیکهے گا ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الله تعالی کو خوبصورت اور بہترین صورت میں دیکها''(مجموع الفتاوی ، جلد ٥ ، صفحہ ٢٥١)
شیخ ابن بازؒ اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ ''دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن خواب میں اس کی زیارت ہوسکتی ہے اور دلوں کے حالات کے مطابق قلبی مکاشفات اور مشاہدات ہوسکتے ہیں۔''(فتاوی ابن باز،جلد دوم صفحہ 127) 
اور یہی فتوی سعودیہ کی فتاوی لجنہ الدائمہ کی کمیٹی کا بھی ہے(فتاوی،جلد2 صفحہ 235) 
غیر مقلدین سے سوال یہ ہے کہ اگر تمہارے نزدیک اللہ کی خواب میں زیارت ممکن نہیں اور جو اس کو جائز کہتا ہے وہ جھوٹا ہے تو اُمید ہے کہ ان کا یہ جھوٹا ہونے کا فتوی نذیر حسین دہلوی، ابن تیمیہؒ، ابن بازؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا واقعہ نقل کرنیوالے محدثین پہ بھی لگے گا۔

غلامِ خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال


امام ابو حنیفہؒ پہ حدیث کی مخالفت کے الزام کا جواب غیر مقلدعالم یحییٰ گوندلوی کی زبان سے


غیر مقلدین اکثرامام ابو حنیفہؒ پہ الزام لگاتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ احادیث کو رد کرتے تھے یا حدیث کی مخالفت کرتے تھے ۔
غیر مقلدین کے اس الزام کا جواب غیر مقلدین کے عالم یحییٰ گوندلوی نے اپنی کتاب ''دوام حدیث'' میں تفصیل سے دیا ہے۔
یحییٰ گوندلوی اپنی کتاب میں ''امام ابو حنیفہؒ اور حدیث کے متعلق ان کے اقوال'' کا عنوان دے کر لکھتے ہیں کہ '' امام ابو حنیفہؒ حدیث کو اسی طرح مانتے تھے جس طرح دوسرے ائمہ مانتے ہیں۔۔۔ بعض جگہ امام ابو حنیفہؒ سے بعض احادیث کے متعلق الفاظ مروی ہیں کہ یہ حدیث ''رجز'' یا ''ہذیان'' ہے یہ سراسر غلط ہے۔۔۔ ان کی سندیں صحیح نہیں۔۔ اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ''امام بخاریؒ نے امام ابو حنیفہؒ کو جو ''ضعفاء'' میں شمار کیا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ امام صاحب حدیث کو رد کر دیتے تھے بلکہ اس لئے ضعیف کہا ہے کہ محدثین کو جس قسم کے حافظہ کی ضرورت ہوتی ہے ان کے خیال میں وہ اس معیار پہ پورئ نہیں اترتے۔حافظ ابن حجرؒ نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کو ثقہ کہنے والے جرح کرنیوالوں سے ذیادہ ہیں۔۔ امام ابو حنیفہ حدیث کے متبع ہیں''۔(دوام حدیث،جلد 1 صفحہ 329 تا 339)
تو یحییٰ گوندلوی کے ان حوالوں سے ثابت ہو گیا کہ امام ابو حنیفہؒ پہ حدیث کی مخالفت اور حدیث کو رد کرنے کا الزام لگانا غلط ہے۔ 
یحییٰ گوندلوی کا یہ حوالہ غیر مقلدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 
غلامِ خاتم النبیین ﷺ،
محسن اقبال


کیا امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک خنزیر حلال ہے؟ غیر مقلدین کے اعتراض کا جواب غیر مقلدین کے گھر سے


غیر مقلدین اکثرامام بخاریؒ کی کتاب جزء القرآۃ سے ایک حوالہ پیش کرکے امام ابو حنیفہؒ پہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بری خنزیر حلال ہے۔
حالانکہ وہاں امام بخاریؒ نے امام ابو حنیفہؒ کا نام نہیں لکھا او ر نہ ہی خنزیر کو حلال کہنے والے کا نام موجود ہے۔ 
غیر مقلدین کے مشہور محدث زبیر علی زئی نے جزء القرآۃ کی تحقیق میں لکھا ہے کہ ''خنزیر کو حلال قرار دینے والے کا نام موجود نہیں ہے۔ اس سے مراد امام ابو حنیفہؒ نہیں ہیں کیونکہ یہ مروی ہے کہ وہ خنزیر بری کو حرام سمجھتے تھے بلکہ خنزیر بحری(ڈولفن مچھلی) بھی ان کے نزدیک بقول دمیری حرام ہے۔خنزیر بری کو حلال سمجھنے والا کوئی مجہول شخص ہے۔''(نصر الباری،صفحہ 199)

تو زبیر علی زئی کے اس حوالے سے ثابت ہو گیا کہ خنزیر کو حلال کہنے والے امام ابو حنیفہؒ نہیں بلکہ کوئی مجہول شخص ہے۔
دوسری طرف غیر مقلدین کے نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ '' خنزیرکے حرام ہونے سےا س کا ناپاک ہونا ثابت نہیں جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں۔''(بدور الاہلہ، صفھہ 16)

اس کے علاوہ غیر مقلدین کے مصدقہ امام شوکانی ایک حدیث کی تحقیق میں کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ حدیث بحری خنزیر اور کتا کےبھی حلال ہونے کی دلیل ہے''(نیل الاوطار،جلد1صفحہ27)
تو غیر مقلدین کے امام ابو حنیفہؒ پہ اس اعتراض کا جواب غیر مقلد عالم سے ہی مل گیا اور اس کے ساتھ ساتھ غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ نواب صدیق حسن خان اور امام شوکانی کے ان حوالوں پہ بھی نظر کرم فرمائیں جن کے نزدیک بحری خنزیر اور کتا حلال ہے اور خنزیر ماں کی طرح پاک ہے۔ 

غلامِ خاتم النبیینﷺ
محسن اقبال