غیر مقلد اکثر اعتراض کرتے ہیں کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب کتابرتن میں منہ ڈال دے تو اس کو پاک کرنے کے لئے سات مرتبہ دھویا جائے ۔ لیکن احناف کے نزدیک برتن کو ۳ بار دھونا ہی کافی ہے۔ بولئے یہ حدیث کی مخالفت ہے یا نہیں ؟ اس کے لئے غیر مقلدین نے ھدایہ کا سکین دیا لیکن اپنی عادت کے مطابق ادھوری بات نقل کی۔ ہدایہ میں اس عبارت کے بعد واضح لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق برتن کو تین مرتبہ دھویا جائے گا۔ ہدایہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے استدلال کیا جا رہا ہے جس کو غیر مقلدین نے نقل نہیں کیا اور ادھوری عبارت نقل کر کے احناف پہ حدیث کی مخالفت کا الزام لگایا۔
کتے کے جھوٹے برتن کو دھونے سے متعلق احادیث مختلف آئی ہیں ۔ بخاری و مسلم کی بعض احادیث میں ساتھ مرتبہ دھونے کا حکم ہے اور مٹی سے مانجھنے کا حکم نہیں۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ساتھ بار دھونے کا حکم ہے اور پہلی بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:649/ حدیث مرفوع
۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ سَمِعَ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ الْمُغَفَّلِ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْکِلَابِ ثُمَّ قَالَ مَا بَالُهُمْ وَبَالُ الْکِلَابِ ثُمَّ رَخَّصَ فِي کَلْبِ الصَّيْدِ وَکَلْبِ الْغَنَمِ وَقَالَ إِذَا وَلَغَ الْکَلْبُ فِي الْإِنَاءِ فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَعَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ فِي التُّرَابِ ۔
649۔ عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، ابوتیاح، مطرف بن عبد اللہ، ابن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا پھر فرمایا ان لوگوں کو کیا ضرورت ہے اور کیا حال ہے کتوں کا، پھر شکاری کتے اور بکریوں کی نگرانی کے لئے کتے کی اجازت دے دی اور فرمایا جب کتابرتن میں منہ ڈال جائے تو اس کو سات مرتبہ دھوؤ اور آٹھویں مرتبہ مٹی کے ساتھ اس کو مانجھو۔
ابوداؤد حدیث نمبر ۷۳ اور دارقطنی حدیث نمبر ۱۸۳ میں سات بار دھونے کا حکم ہے اور ساتویں بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی۔ سات بار دھونے اور پہلی یا آخری بار مٹی سے مانجھنے سے متعلق احادیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ عنہ سے مسلم شریف میں میں آٹھ بار دھونے اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی ہے۔
پھر حضرت ابوہریرہ کا اپنا موقف بھی یہ تھا کہ تین بار دھویا جائے ۔ جیسا کہ حافظ الحدیث ابن عدی نے الکامل ، میں حضرت ابوہریرہ سے یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈال دے تو اس میں جو کچھ ہے گرادو اور برتن کو ۳ بار دھوؤ ۔
أَخْرَجَهُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي ” الْكَامِلِ ” عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكَرَابِيسِيِّ ثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ ثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي إنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيُهْرِقْهُ وَلْيَغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ '' اگر کتا برتن میں منہ ڈال دے تو تین بار دھونا چائیے'' (دارقطنی حدیث نمبر ۱۹۳، ۱۹۴)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنِى عَلِىُّ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ. وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِىُّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِى الإِنَاءِ فَأَهْرِقْهُ ثُمَّ اغْسِلْهُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.
مصنف عبدالرزاق جلد ۲ صفحہ ۹۷ میں حضرت عطا بن یسار کا فتویٰ موجود ہے، انہوں نے بھی 3، 5 یا 7 مرتبہ دھونے کی اجازت دی ہے۔
عبد الرزاق عن ابن جريج قال : قلت لعطاء : كم يغسل الاناء الذي يلغ فيه الكلب ؟ قال : كل ذلك سمعت ، سبعا ، وخمسا ، وثلاث مرات.
معمر رح جو کہ صحیح مسلم کی سات مرتبہ دھونے کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ''میں نے امام زہری سے کتے کے جھوٹے برتن کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ 3 مرتبہ دھویا جائے'' ( مصنف عبدالرزاق، جلد1 صفحہ 97)
عبد الرزاق عن معمر قال : سألت الزهري عن الكلب يلغ في الاناء قال : يغسل ثلاث مرات
اگر ۳ مرتبہ دھونے کی حدیث موجود نہ ہوتی اور سات بار دھونے کی حدیث ہوتی تو اعتراض کسی حد تک درست ہوتا کہ تین بار دھونے کی بات حدیث سے ٹکراتی ہے۔جب ۳ بار دھونے کی حدیث بھی موجود ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ صجس سے سات باردھونے کی حدیث مروی ہے خود انہیں سے تین بار دھونے کی حدیث بھی مروی ہے بلکہ خود انہیں کا فتویٰ تین بار دھونے کاہے تو پتہ چلا کہ ساتھ بار دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ حضور اکرم ﷺ نے شروع شروع میں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ بعد میں جب شکاری اور حفاظت کے کتے رکھنے کی اجازت دی تو کتے کے لئے جھوٹے برتن کو دھونے کے مسئلے میں تین بار دھونے کا حکم دے کہ حکم میں آسانی پیدافرمادی۔ ورنہ حضرت ابوہریرہ جیسے صحابی رسول سے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حضور کی حدیث میں سات بار دھونے کا حکم ہو اور وہ ازخود تین بار دھونے کو کافی سمجھیں۔
اگرصرف سات مرتبہ دھونا واجب ہو تو حضرت عبداللہ ابن مغفل کی روایت کا کیا جواب ہوگا جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا لوگوں کو کتوں سے کیا لینا دینا ہے ؟ پھر بعد میں آپ نے شکاری اور حفاظتی کتے رکھنے کی اجازت د ے دی اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو ساتھ بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو(صحیح مسلم)
اب مسلم کی اس روایت سے تو آٹھ مرتبہ کا حکم بھی آ گیا تو آپ کس پہ عمل کریں گے؟
(بشکریہ ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس کے علاوہ امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ ساتھ امام مالکؒ کا فتوی بھی تین مرتبہ دھونے کا ہی ہے جس کا اعتراف فتاوی علمائے حدیث میں موجود ہے۔(فتاوی علمائے حدیث،1/25)
جیسا کہ فتاوی علمائے حدیث کے حوالہ سے ثابت ہوا کہ امام مالکؒ کا فتوی بھی تین بار دھونے کا ہے تو غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ وہ امام مالکؒ کے خلاف بھی حدیث کی مخالفت کا فتوی لگائیں؟ تو ثابت ہوا کہ احناف کا یہ مسئلہ بھی حدیث سے ثابت ہے اور غیر مقلدین کا احناف کو اس مسئلہ میں حدیث کا مخالف کہنا غلط ہے۔ ��
غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، محسن اقبال
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں