اکثر غیر مقلدین کو دیکھا ہے کہ اگر کوئی حنفی امام اعظم ابو حنیفہؒ کے
نام کے ساتھ رضی اللہ کہہ دے یا لکھ دے تو ان کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ رضی اللہ عنہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کے
ساتھ لکھا جائے لیکن اگر کوئی کسی تابعی یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے
علاوہ کسی ولی یا امام کے ساتھ رضی اللہ لکھ دے تو جائز ہے۔۔
اگر ان غیر مقلدین کو احناف کا امام ابو حنیفہؒ کے لئے رضی اللہ لکھنا
بُرا لگتا ہے اور وہ اس کو ناجائز کہتے ہیں تو پہلے اپنے ان اکابر علماء پہ
بھی فتوی لگائیں جو امام ابو حنیفہؒ کے نام کے ساتھ اور کئی اکابرین کے
نام کے ساتھ رضی اللہ لکھتے ہیں۔
غیر مقلدین کے ہفت روزہ الاعتصام
میں غیر صحابی کے لئے رضی اللہ عنہ لکھنا جائز کہا گیا ہے۔( ہفت روزہ
الاعتصام، 11 ستمبر 1998، صفحہ 6)
غیر مقلدین کے مشہور عالم
نواب صدیق حسن خان کے بیٹے علی حسن خان نے اپنے والد نواب صدیق حسن خان کی
سوانح حیات '' مآثر صدیقی'' کے نام سے لکھی اور وہ اس کتاب کے میں کئی جگہ
امام ابو حنیفہؒ کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔( مآثر صدیقی، جلد 4
صفحہ 5 تا 10)
اس کے علاوہ صدیق حسن خان کے دوسرے بیٹے نور الحسن
خان صاحب اپنی کتاب میں امام شوکانی کے نام کے ساتھ بھی رضی اللہ عنہ
لکھتے ہیں۔( عرف الجادی، صفحہ 15)
نواب صدیق حسن خان صاحب خود
اپنی مشہور کتاب ''التاج المکلل'' میں امام ابو حنیفہؒ کے تذکرہ میں ان کے
نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔( التاج المکلل، صفحہ 125)
نواب صدیق حسن خان اسی کتاب میں اپنے والد کے تذکرہ میں بھی ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔
تو غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ احناف پہ فتوی لگانے سے پہلے اپنے ان اکابر
علماء پہ فتوی لگائیں جو امام ابو حنیفہؒ اور باقی کئی علماء کے نام کے
ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیین ﷺ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
محسن اقبال
Jazakallah u khair :]
جواب دیںحذف کریں