ائمہ احناف نے کتاب الحیل کی امام ابوحنیفہ یاامام محمد کی جانب نسبت کی تردید کی ہے۔ظاہرسی بات ہے کہ صاحب البیت ادری بمافیہ کے اصول کے مطابق امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں حالات وواقعات میں وہی باتیں زیادہ قابل اعتبار ہوں گی جوائمہ احناف سے منقول ہوں گی کیونکہ ان کی پوری زندگی امام ابوحنیفہ کے حالات واقعات اورفقہی اجتہادات کی تلاش وتحقیق میں گزری ہے۔حافظ ذہبی نے امام محمدبن الحسن کے مناقب پر ایک خاص کتاب لکھی ہے اس میں وہ امام طحاوی کی سند سے نقل کرتے ہیں۔
الطحاوی، سمعت احمدبن ابی عمران،یقول:قال محمدبن سماعۃ،سمعت محمدبن الحسن یقولـ:ھذاالکتاب -یعنی کتاب الحیل -لیس من کتبنا،انماالقی فیھا،قال ابن ابی عمران،انماوضعہ اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ
(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ،ص54)
محمد بن سماعہ کہتے ہیں کہ میں نے محمدبن الحسن سے کہاوہ کہتے تھے ’’یہ کتاب یعنی ’کتاب الحیل‘ہماری کتابوں*میں سے نہیں*ہے۔ اس میںبیرونی عناصر کی کارفرمائی ہے‘‘۔ابن ابی عمران کہتے ہیں کہ کتاب الحیل اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے وضع کی ہے۔یہ سند حسن لذاتہ سے کسی درجہ میں کم نہیں*ہے۔ کیونکہ اس کے تمام روات ثقہ اورصدوق ہیں۔
اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ امام محمد بن الحسن جو امام ابوحنیفہ کے براہ راست شاگرد اوران کے علوم کے شارح وناشر ہیں جنہوںنے ان کی فقہ کو مقبول عام بنانےمیںبہت کوشش کی ۔ان سےزیادہ امام ابوحنیفہ کے حالات سے کون واقف ہوسکتاہے۔ وہ صاف سیدھی یہ بات کہتے ہیں کتاب الحیل ہماری کتابوں*میں سے نہیں ہے۔اس میں بیرونی عناصر کی کارفرمائی ہے۔ اگرامام محمد یہ کہتے ہیں کہ کتاب الحیل میری تصنف نہیں ہے توایک علیحدہ بات ہوتی وہ فقہ حنفی کے ائمہ یعنی امام ابوحنیفہ،امام زفر،امام ابویوسف وغیرہ سبھی سے اس کی نفی کررہے ہیں*کہ یہ ہماری کتابوں*میں سے نہیں ہے۔
اس کی تائید اس قول سے بھی ہوتی ہے جو مشہور حنفی فقیہہ اورمحدث عبدالقادرالقرشی نے( الجواہرالمضیئۃ 3/576)میں ا بوسلیمان جوزجانی کے حوالہ سے نقل کیاہے۔امام ابوسلیمان جوزجانی کہتے ہیں۔
کذبواعلی محمد،لیس لہ کتاب الحیل وانماکتاب الحیل لوراق‘‘
لوگ امام محمد کے سلسلے میں جھوٹ کہتے ہیں۔کتاب الحیل ان کی تصنیف نہیں*ہے ۔کتاب الحیل کسی وراق(نقل نویس)کی ہے۔
کتاب الحیل کی نسبت چونکہ امام محمد کی جانب بھی بعض لوگوں نے کی ہے لہذا ابوسلیمان جوزجانی جوامام محمد کے خاص شاگرد ہیں۔ انہوں نے کتاب الحیل کی امام محمد کی کتاب ہونے کی نفی کی ہے۔
جب کہ مشہورحنفی فقیہہ سرخسی نے ان کا مزید یہ قول نقل کیاہے
ان الجھال ینسبون علماءنارحمھم اللہ الی ذلک علی سبیل التعییر،فکیف یظن بمحمدرحمہاللہ انہ سمی شیئاًمن تصانیفہ بھذاالاسم لیکون ذلک عوناًللجھال علی مایتقولون(المبسوط 30/290)
جاہل افراد ہمارے علمائے کی جانب کتاب الحیل کی نسبت شرم دلانے کیلئے کرتے ہیں لیکن امام محمد رحمہ اللہ سے کیسے گمان رکھاجاسکتاہے کہ انہوں نے اپنی تصانیف میں اس طرح کی کوئی تصنیف کی ہوگی تاکہ جاہلین کی مزید حوصلہ افزائی ہو۔
ابن تیمیہ اورابن قیم کی کتاب الحیل کی تردید
یہاں تک ہماری بات اس موضوع پر تھی کہ امام ابوحنیفہ کی جانب کتاب الحیل کی نسبت درست نہیں ہے۔ لیکن ان سب سے قطع نظرکچھ لوگوں کی افتاد طبع ایسی ہے کہ ان کو کتنی بھی محقق اورمدلل بات کہہ دو لیکن جب تک ابن تیمیہ یاابن قیم رحمھمااللہ کا کوئی نقل نہ کردیاجائے ان کو’’ اطمینان قلب‘‘حاصل نہیں ہوتا۔ایسے لوگوں کیلئے بھی ہمارے پاس خاصامواد موجود ہے جس سے ان کی ضیافت کی جاسکے۔
ابن تیمیہ کھتے ہیں۔
ولایجوز ان ینسب الامر بھذہ الحیل ھی محرمۃ بالاتفاق اوھی کفر،الی احدمن الائمۃ،ومن ینسب ذلک الی احمد منھم فھو مخطی فی ذلک،جاھل باصول الفقہاء وان کانت الحیلۃ قد تنفذ علی اصل بعضھم بحیث لایبطلھا علی صاحبھا،فان الامر بالحیلۃ شی وعدم ابطالھا بمن یفعلھاشیء آخر،ولایلزم من کون الفقیہ لایبطلھا ان یبیحھا،فان کثیرا من العقود یحرمھا الفقیہ،ثم لایبطلھا.................. ............ ................وانماغرضنا ھناان ھذہ الحیلۃ ھی محرمۃ فی نفسھما لایجوز ان ینسب الی امام انہ امربھا،فان ذلک قدح فی امامتہ،وذلک قدح فی الامۃ حیث ائمتوا بمن لایصلح للامامۃ وفی ذلک نسبۃ لبعض الائمۃ الی تکفیر اوتفسیق وھذا غیرجائز(الدلیل علی بطلان التحلیل ص170)
اوریہ جائز نہیں ہے کہ وہ حیلے جو متفقہ طورپر حرام ہیں یاکفریہ ہیں ان کی نسبت ائمہ مسلمین میں سے کسی کی جانب کی جائے اورجوکوئی کسی امام کی جانب ان حیلوں کی نسبت کرتاہے تو وہ اس سلسلے میں خطاوارہے فقہاء کے اصول سے جاہل ہے ۔اگرچہ یہ حیلے ان میں سے بعض کے اصول پر کارگرہوتے ہیں اس طورپر کہ ان حیلوں کو اختیار کرنے والے کے امر کوباطل نہیں کیاجاتالیکن کسی حیلہ کاحکم دینا الگ شے ہے اورکسی حیلہ کو باطل نہ قراردینادوسری بات ہے اورکسی فقیہ کے ان حیلوںکوباطل نہ قراردینے سے یہ لازم نہیں آتاکہ وہ اس کو جائز بھی کہتاہے۔چونکہ بہت سارے لین دین کے ایسے معاملات ہیں جس کو فقیہ حرام قراردیتاہے پھر اس کوباطل نہیں کہتا....................ہم اری غرض یہ ہے کہ حرام حیلوں کی نسبت کسی امام کی طرف جائز نہیں ہے اس طورپر کہ اس امام نے اس کے کرنے کا حکم دیاہوکیونکہ یہ بات اس کی امامت میں بٹہ لگانے والی ہےاوراسی کے ساتھ یہ چیز امت کی شان میں بھی بٹہ لگاتی ہے کہ انہوںنے ایسے لوگوںکو اپناامام بنایا جوامامت کے لائق نہیں تھے ۔علاوہ ازیں اس میں بعض ائمہ کو کی جانب تکفیر یاتفسیق کی نسبت ہوتی ہےاوریہ جائز نہیں ہے۔
پھراسی بات کو تھوڑے آب وتاب کے ساتھ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں بیان کیاہے ۔
والمقصود ان ھذہ الحیل لاتجوز ان تنسب الی امام،فان ذلک قدح فی امامتہ،وذلک یتضمن القدح فی الامۃ حیث ائتمت بمن لایصلح للامامۃ،وفی ذلک نسبۃ لبعض الائمۃ الی تکفیر اوتفسیق وھذاغیرجائز،ولوفرض انہ حکی عن واحد من الائمۃ بعض ھذہ الحیل المجمع علی تحریمھا،فاما ان تکون الحکایۃ باطلۃ ،اویکون الحاکی لم یضبط لفظہ،فاشتبہ علیہ فتواہ بنفوذھا بفتواہ باباحتھا مع بعد مابینھما،ولوفرض وقوعھا منہ فی وقت مافلابدان یکون قد رجع عن ذلک،وان لم یحمل الامر علی ذلک لزم القدح فی الامام ،وفی جماعۃ المسلمین الموتمنین بہ ،وکلاھماغیرجائز(اعلام الموقعین3/233)
خلاصہ کلام یہ کہ ان حیلوںکی نسبت کسی بھی امام کی جانب درست نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی امامت کی شان میں بٹہ لگاناہے اوراس سے امت کی شان میں بھی بٹہ لگتاہے کہ انہوںنے ایسے لوگون کو اپنامقتدابنایا جو امامت کے اہل نہیں تھے اوراس میں بعض ائمہ کی تکفیر یاتفسیق ہوتی ہے جو کہ جائز نہیں ہےاوراگرمان لیاجائے کہ ائمہ میں سے کسی میں کسی سے متفقہ طورپر حرام حیلوںمیں سے کوئی حیلہ منقول ہے تواس کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں یاتو وہ نقل باطل ہو یانقل کرنے والے نے الفاظ ٹھیک سے محفوظ نہ کئے ہوں اوراس نےنفاذ کافتویٰ جواز کے فتویٰ میں بدل دیاہوحالانکہ دونوں میں بہت فرق ہے اوراگریہ مان بھی لیاجائے کہ کسی امام نے کسی وقت میں کسی ایسے حرام حیلہ کو جائز کہاہوتوبھی یہ ضروری ہے کہ اس نے بعد میں اس سےرجوع کرلیا ہو اوراگریہ شقیں نہ مانی جائیں تو اس سے امامت کی شان میں بٹہ لگاتااورمسلمانوں*کی جماعت پر بٹہ لگتاہے اور یہ دونوں جائز نہیں ہے۔
کتاب الحیل کی امام ابوحنیفہ کی جانب نسبت کیوںہوئی؟
جو لوگ کسی چیز میں شہرت رکھتے ہیں تو اس کی جانب اس تعلق سے بے بنیاد اورعجیب وغریب کہانیاںمنسوب کردی جاتی ہیں۔ حاتم طائی کانام سخاوت میں مشہور ہے لیکن دیکھئے کیسے کیسے عجیب وغریب افسانے اس کے نام منسوب ہیں۔اشعب بخالت میں مشہور ہے تواس کی جانب بخالت کی عجیب وغریب داستانیں زبان زد عام ہیں۔رستم بہادری میں مشہور ہے تودیکھئے اس کی جانب فرودی نے پوراشاہنامہ ہی لکھ مارا جس میں خیالی واقعات ان کی جانب منسوب کردیئے۔اسی طرح امام ابوحنیفہ کی ذکاوت وذہانت اورفطانت سے مشکل مسائل کی عقدہ کشائی روزروشن کی طرح واضح ہے ۔مشکل مسائل کے حل میں ان کے تدبیریں اتنی نازک اوردقیق ہوتی ہیں عام آدمی کی نگاہ وہاں تک پہنچنی مشکل ہے ۔اگروقت کی تنگی کا خیال نہ ہوتا تومیں دوتین مثالیں بھی پیش کرتا جس سے واضح ہوتاکہ مشکل مسائل کے حل میں امام ابوحنیفہ کی ذہانت وفطانت کس طرح گل کترتی تھی۔ان کی یہی شہرت ان کیلئے بلائے بے درماں بن گئی اوریہی وجہ ہے کہ ان کے دور کے اوربعد کے ادوار کے لوگوں*نے متفقہ طورپر حرام اورکفریہ حیلے حوالے بھی ان کی جانب منسوب کردیا۔امام جوزجانی نے بھی کہاکہ وہ کسی نقل نویس کاکارنامہ تھا ۔آج بھی ایساہوتاہےکہ مشہور مصنف کے نام سے جعلی کتابیں چھاپ دی جاتی ہیں تاکہ زیادہ بکیں گی۔ یہی حال امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کتاب الحیل کا ہے جس میں امام ابوحنیفہ کی جانب حرام حیلوںپر مشتمل کتاب کی نسبت کردی گئی ۔
اس کےعلاوہ یہ بات واضح رہے کہ بعض فرقے ایسے بھی رہے ہیں جو گمراہ تھے لیکن فرو ع میں وہ فقہ حنفی پرعمل پیراتھے۔یہ عین ممکن ہے کہ جس طرح عقائد میں انہوں*نے بعض گمراہ کن عقائد کی نسبت امام ابوحنیفہ کی جانب کردی تاکہ ان کے کفریہ عقائد کیلئے ڈھال میسر آسکے۔ یہ بھی غیرممکن نہیں کہ انہوں*نے ہی بعض حرام حیلوں کو امام ابوحنیفہؒ کی جانب منسوب کردیاہو تاکہ ان کیلئے پردہ پوشی ہوسکے اورکوئی ان پر اعتراض نہ کرسکے۔جیسے خلق قرآن کاعقیدہ امام ابوحنیفہؒ اس سے قطعاًبری ہیں لیکن کچھ لوگوں نے بشرالمریسی اوراحمد بن ابی دائود وغیرہ معتزلیوںنے خلق قرآن کا عقیدہ امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کردیاتاکہ ان کیلئے ڈھال مہیاہوسکے۔حیلوں کی کتاب میں بھی یہی بات ہوسکتی ہےکسی نے امام ابوحنیفہؒ کی جانب منسوب کردیاہو۔
بشکریہ
محترم جمشید بھائی۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں