غیر مقلدین کے علامہ بدیع الدین راشدی صاحب نےہدایہ کے حوالہ سے فقہ حنفی پہ اعتراض کیا ہے کہ فقہ حنفی میں جو بچہ مردہ پیدا ہو اور اس کی آواز نہ آئے تو اس کو بنی آدم کے احترام کی وجہ سے صف کپڑے میں لپیٹا جائگا اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا(فقہ و حدیث،صفحہ 149) اور ان کا دعوی ہے کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث نبوی کے خلاف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ میں حدیث نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کیا ہے اور غیر مقلد عالم نے ہدایہ کی مکمل عبارت نقل نہیں کی بلکہ ادھوری عبارت نقل کی۔
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں کہ ''بچہ پیدا ہو کر اگر روئے تو اسکا نام رکھا جائے گا اورغسل دیا جائے گا اور اس کا جنازہ پڑھا جائے گا کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جب بچہ روئے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے اور نہ روئے تو نہ پڑھا جائے کیونکہ رونا زندگی کی علامت ہے اسلئے اس کے حق میں میت کی سنت محقق ہوئی اور جو نہ روئے اس کوبنی آدم کے احترام کی وجہ سے صف کپڑے میں لپیٹا جائگا اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گااس حدیث کی بنا پہ جو میں نے روایت کی۔(ہدایہ،فصل فی صلوٰۃ المیت)
احناف کا یہ مسئلہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی بناء پر ہے۔
صاحب ہدایہ نے پہلے حدیث بیان کی اور مسئلہ لکھنے کے بعد واضح بیان کیا کہ اس حدیث کی بناء پہ جو میں نے روایت کی ہے لیکن غیر مقلد عالم نے ہدایہ سے آدھی عبارت نقل کی اور باقی عبارت چھوڑ دی جس میں حدیث کا حوالہ تھا۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا“۔( و قد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ۴۳ (۱۰۳۲)، سنن الدارمی/الفرائض ۴۷ (۳۱۶۸) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ۲۳۶قال الشيخ الألباني: صحيح) اور ترمذی میں الفاظ ہیں :جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار نہ پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
تو احناف کا یہ مسئلہ بھی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کو حدیث کے مخالف کہنا غیر مقلدین کی جہالت ہے۔ اگر اس کے باوجود غیر مقلدین کا یہی کہنا ہے کہ احناف کا یہ مسئلہ حدیث کے مخالف ہے تو ان کو چاہیے کہ احناف کے ساتھ ساتھ اپنے علماء ثناء اللہ امرتسرئ اور عبداللہ روپڑی پہ بھی حدیث کی مخالفت کا فتوی صادر فرما دیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں کہ ''حدیث شریف میں ہے کہ جو بچہ ماں کے پیٹ سے نکل کر آواز دے کر مرے اس کا جنازہ پڑھا جائے جو اتنا بھی نہ ہو اس کو یونہی دفن کر دیا جائے۔ـ(فتاوی ثنائیہ/2/52) تو غیر مقلدین کے شیخ الاسلام بھی وہی فتوی دے رہے ہیں جو احناف کا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ غیر مقلدین کے محدث عبداللہ روپڑی جابر رضی اللہ کی حدیث کو ہی استدلال بنایا ہے اور ساتھ ساتھ علامہ شوکانی کا بھی حوالہ دیا ہے کہ ''نیل الاوطار میں ہے۔وَیَدَلُّ عَلٰی اِعْتِبَارِ الْاِسْتِہْلَالِ حَدِیْثُ جَابِرِ عِنْدِ التِّرْمَذِیْ وَالنِّسَائی وَابْنَ مَاجَۃَ وَالْبَیْھَقِیْ بِلَفْظِ اِذَا اسْتَھَلَّ السِّفْطُ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ)) (نیل الاوطار ص ۳ ص۲۸۰)۔(یعنی آواز کے شرط ہونے پر جا بر رضی اللہ عنہ کی حدیث دلالت کرتی ہے جس کو ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اور بیہقی نے روایت کیا ہے، اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کچھ بچہ آواز کرے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، اور وہ وارث ہو بھی ہوگا)۔۔ اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ''مگر بعض اور احادیث سے اس کی تاکید ہوتی ہے، اس لیے یہ لائق استدلال ہو گی'' اور فتوئ کے آخر میں لکھتے ہیں کہ (ترجیح اسی کو ہے کہ جب زندہ باہر نکلے تو، تب نماز جنازہ وغیرہ ہونی چاہیے، ورنہ نہیں چنانچہ اوپر کی روایت سے واضح ہو چکا ہے، تفصیل، نیل الاوطار وغیرہ میں ملاحظہ ہو۔ (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۴۵۲)
تو غیر مقلدین کے شیخ الاسلام اور محدث روپڑی صاحب کا بھی وہی فتوی ہےجو احناف کا ہے تو اُمید ہے کہ غیر مقلدین اپنے ان اکابر علماء پہ بھی حدیث کی مخالفت کا فتوی صادر کریں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں