صفحات

بدھ، 30 مئی، 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، فضائل اعمال کے واقعہ پر اعتراض کا جواب


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، فضائل اعمال کے واقعہ پر اعتراض کا جواب
’’حافظ ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جا رہا تھا۔ میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ہے یا رکھتا ہے تو یوں کہتا ہے: اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد۔ میں نے اس سے پوچھا کیا کسی علمی دلیل سے تیرا یہ عمل ہے؟ (یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔۔میں نے پوچھا یہ درود کیا چیز ہے؟ اس نے کہا، میں اپنی ماں کے ساتھ حج کو گیا تھا۔ میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی) اس کا منہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہ کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکھا کہ تہامہ (حجاز) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا۔ اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ میں نے عرض کیا مجھے کوئی وصیت کیجئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد ۔ پڑھا کر۔ (نزہۃ) ۔ ‘‘ [فضائل درود ص ۱۲۳-۱۲۶، تبلیغی نصاب ص ۷۹۳، ۷۹۴)
ایسا ہی واقعہ امام قسطلانیؒ نے مسالک الحنفا الی مشارع الصلوٰۃ علی لمصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 164،165 پر نقل کیا ہے،شیخ عبدالرحمٰن اصفوری شافعیؒ کی کتاب نزہۃ المجالس صفحہ 96، امام ابن بشکوال نے القربہ صفحہ96 پر، امام یافعی یمنیؒ نے روض الریاحین میں ، امام اور غیر مقلدین کے نواب صدیق حسن خان نے کتاب التعویذات صفحہ 67 پر نقل کیا ہے۔
مولانا ذکریا نے فضائل اعمال کا واقعہ نزہۃ المجالس سے نقل کیا اور اس کا حوالہ بھی دیا لیکن غیر مقلدین نے یہ ظاہر کیا کہ یہ واقعہ مولانا زکریاؒ نے خود بنایا ہے۔ غیر مقلدین کو چائیے کہ اگر کسی کتاب سے واقعہ نقل کرنا گستاخی ہے تو علامہ قسطلانی، امام ابن بشکوال، عبدالرحمان صفوری الشافعی، امام یافعی یمنی اور نواب صدیق حسن خان پر بھی گستاخی کا فتوی لگائیں جنہوں نے ایسا ہی واقعہ 
اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔






غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ، محسن اقبال


ہفتہ، 26 مئی، 2018

علمائے احناف اور آٹھ تراویح!! غیر مقلدین کے اعتراضات کا جواب

اکثر غیر مقلدین کی طرف سے علمائے احناف کے حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں کہ بعض علمائے احناف آٹھ تراویح کے قائل ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر مقلدین اکثر علمائے احناف کے ادھورے حوالے دیتے ہیں اور حوالوں میں خیانت کر کے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ان شاء اللہ غیر مقلدین کے دئے گئے ان حوالوں کی حقیقت اس جواب میں آپ لوگوں کے سامنے ہو گی۔

 رکعت تراویح پہ مولانا زکریا کاندھلویؒ کا مسلک اور غیر مقلدین کی خیانت 
ایک غیر مقلد عالم الطاف الرحمان جوہر نے تراویح کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس میں مولانا زکریاؒ کے بارے میں غیر مقلد عالم نے دعوی کیا کہ وہ 8 رکعت تراویح کے قائل ہیں اور 20 رکعت تراویح کے قائل نہیں ہیں۔

غیر مقلد عالم لکھتا ہے کہ '' مولانا زکریاؒ 8 رکعت تراویح کی سنت کا اعتراف کرتے ہوئے اور 20 رکعت کا رگڑا لگاتے ہوئے لکھتے ہیں ''یقیناََ محدثین کے اصولوں کے مطابق بیس رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفاعاََ ثابت نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ والی روایت محدثین کے اصولوں کے مطابق مجروح ہے اور ثابت نہیں''(تراویح کا مقدمہ حنفی فقہاء کی عدالت میں،صفحہ 15) 
غیر مقلد عالم نے مولانا زکریا ؒ کی ادھوری عبارت نقل کی کیونکہ مکمل عبارت میں مولاناؒ لکھتے ہیں کہ''لیکن باوجود اس کے فعلِ عمر اور سکوتِ صحابہ کی بنا پر اس کے ثابت ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا،ان تمام صحابہ کا بیس رکعت پر (اجماع کرنا نص کے درجے میں ہے ۔''(اوجزالمسالک،ج2 صفحہ 534

مولانا زکریاؒ تو عمر رضی اللہ اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کر رہے ہیں جس کو غیر مقلد عالم نے نقل نہیں کیا اور ادھوری عبارت پیش کر دی۔ اسی کتاب میں مولانا زکریاؒ 20 رکعت تراویح کے دلائل پیش کرر ہے ہیں ۔
پس غیر مقلد عالم کا مولانا زکریاؒ پہ بیس رکعت تراویح کے رد کا دعوی اور 8 رکعت کے قائل ہونے کا دعوی غلط اور جھوٹا ہے۔


علامہ بدرالدین عینی اور غیر مقلدین کا دھوکہ
علا مہ بدر الدین عینی کی کتاب عمدہ القاری کے حوالے سے یہ دهوکا دینےکی کو شش کی گئ ہے کہ وہ بھی آٹھ رکعت کو صحیح سمجھتے ہیں۔
ہم اس عبارت کی پوری وضاحت آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔علامہ عینی رحمہ اللہ عمدۃ القاری )جلد:3 ص:597(میں فرماتے ہیں: فإن قلتلم يبين في الروايات المذكورة عدد الصلاة التي صلاها رسول الله فيتلكالليالي قلت روى ابن خزيمة وابن حبان من حديث جابر رضي الله تعالى عنهقال صلى بنا رسول الله في رمضان ثمان ركعات ثم أوتر۔اگر توسوال کرےکہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیں راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔

جواب:دراصل آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دو اروایات مروی ہیں، ایک آٹھ کیاوردوسری بیس کی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے دیانتداری کا مظاہرہ فرماکرآٹھ رکعت والی روایت نقل فرمائی اور بیس والی روایت کی نفی بھی نہیں کی۔لیکن اپنے عمل کا مدار اس آٹھ رکعت والی روایت پر نہیں رکھا بلکہ مدارعمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایات ]جو بیس رکعت کو بیان کرتی ہیں[کوبنایا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ کے ہاں آٹھ رکعت والی روایات معمول بہا نہیں ہے۔اب ہم علامہ عینی رحمہ اللہ کی اس تصریحا ت کو پیش کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں تعداد رکعت تراویح بیس ہیں۔

عشرون وحكاه الترمذي عن أكثر أهل العلم فإنه روى عن عمر وعلي وغيرهمامن الصحابة وهو قول أصحابنا الحنفية )ترجمہ:بیس رکعت تراویح، اما م ترمذی رحمہ اللہ نے اکثر اہل علم کا موقف یہی بیان کیا ہے، اس لیےکہ حضرت عمر ، حضرت علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور یہی ہمارے حضرات حنفیہ کا قول ہے۔(عمدۃ القاری،ج8،245)
ان عددھا عشرون رکعۃ۔(عمد ۃ القاری ج 5ص 458) ترجمہ:تراویح بیس رکعت ہے۔
آپ نے اپنے عمل کا مدار اس آٹھ رکعت والی روایت پر نہیں رکھا بلکہ مدارعمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بنایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:واحتجأصحابنا والشافعية والحنابلة بما رواه البيهقي بإسناد صحيح عن السائب بنيزيد الصحابي قال كانوا يقومون على عهد عمر رضي الله تعالى عنه بعشرينركعة وعلى عهد عثمان وعلي رضي الله تعالى عنهما مثله )
ترجمہ:ہمارے حضرات حنفیہ نے، شافعیہ
اور حنابلہ نےاس حدیث کو دلیل بنایا ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرتسائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ سے سند صحیح سے روایت کی ہے کی حضرتسائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکے دور میں بھی اتنی رکعت ]بیس[پڑھتے تھے۔(ج7،258)
علامہ ابن ہمام حنفی رح اور تراویح
اکثر غیر مقلدین کی جانب سے ابن ہمام حنفی رح کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے کہ ابن ہمامؒ کےنزیدیک بیس تراویح ثابت نہیں ہیں۔

جبکہ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ غیر مقلدین اپنی پرانی روش کو اختیار کرتے ہوئے مکمل عبارت پیش نہیں کرتے۔
علامہ ابن ہمام ؒ 20 تراویح کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن علامہ ابن ہمامؒ 8 کو سنت اور باقی کو مستحب تسلیم کرتے ہیں۔ غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ علامہ ابن ہمامؒ 20 تراویح کا انکار کرتے ہیں غلط ہے۔
علامہ ابن ہمامؒ جہاں 8 رکعت کو سنت تسلیم کرتے ہیں اسی سے پہلے یہ بیان کرتے ہیں کہ
''ہاں بیس تراویح ثابت ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے، یزید بن رومان سے موطا میں روایت ہے کہ کہا لوگ حضرت عمر رضی اللہ کی خلافت کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے یعنی تین وتر سمیت۔اور امام بہیقیؒ نے معرفۃ السنن والاثار میں سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے ، علامہ نووی شافعی نے خلاصہ میں فرمایا کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔'' ( فتح القدیر، جلد 1 صفحہ 485)۔
تویہاں ابن ہمامؒ تسلیم کر رہے ہیں کہ بیس تراویح ثابت ہیں۔
باقی علامہ ابن ہمام ؒ کا صرف اٹھ کو سنت کہنا ان کا اپنا تفرد ہے اور علامہ کشمیریؒ اور عبد الحی لکھنوی ؒ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کا اپنا تفرد ہے جو قابل اعتبار نہیں۔
خود غیر مقلدین کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن ہمامؒ کے تفرد کو احناف قبول نہیں کرتے۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری علامہ ابن ہمام ؒکے تفردات کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''علامہ ابن ھمام حنفی کو فقہ حنفی میں اجتہادی مقام حاصل تھا اور انہوں نے کئی مسائل میں اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کو خود علمائے احناف نے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔لہذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہو گا وہ قابل قبول نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے حنفی مذہب باور کر لیا جائے۔'' ( توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 546)۔۔

یہاں غیر مقلدین کے مستند عالم نے خود تسلیم کر لیا کہ ابن ہمامؒ کا تفرد احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے تو پھر مسئلہ تراویح میں بھی ان کے تفرد کو بار بار پیش کرنا غیر مقلدین کے لئے جائز نہیں۔
مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور غیر مقلدین کا دھوکہ
کیا مولانا خلیل احمد سہارنپوری آٹھ رکعت تراویح کے قائل تهے
مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کا جو حوالہ نقل کیاگیا ہے اسکو انگریزی میں کہتے ہیں آوٹ آف کانٹیکسٹ بات کو پیش کرنا ، دوسری بات یہ ہے کہ
مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ یہاں تراویح کا آٹھ ہونا ثابت نہیں کر رہے بلکہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تراویح کو بدعت کوئی بھی نہیں مانتا اسی لیے انہوں نے یہ الفاظ استعمال کیے حضرت سہارنپوریؒ نے لکھا ہے کہ
سنت موکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔
یعنی جو لوگ تراویح کو کم سے کم بھی سنت موکدہ مانتے ہیں وہ آٹھ کو مانتے ہیں یعنی انکے زمانے میں کوئی بھی ایسا شخص نہ تھا جو یہ کہتا ہو کہ تراویح سنت موکدہ نہیں اور وہ اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔
اور اسی کتاب کے صفحہ آٹھ پر لکھا ہے کہ تراویح آٹھ سے زیادہ کو بدعت کہنا قول کسی عالم کا نہیں بلکہ سفہا کا ہے ۔ یعنی بیوقوفوں کا.

مولانا عبدالحئی الکھنوی اور بیس تراویح
علامہ عبدالحئی لکھنویؒ فرماتے ہیں

ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ؛ لانہ مماواظب علیہ الخلفاء وان لم یواظب علیہ النبی صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، وقد سبق ان سنۃ الخلافاء ایضاً لازم الاتباع وتارکھا اثم ، وان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ، فمن اکتفی علی ثمان رکعات یکون مسیا لترکہ سنۃ الخلافاء، ون شئت ترتیبہ علی سبیل القیاس فقل: عشرون رکعۃ فی التراویح مما واظب علیہ الخلافء الراشدون ، وکل ما واظب علیہ الخلفاءالراشدون فھو سنۃ موکدۃ، والتراویح عشرون رکعۃ سنۃ موکدۃ، ینتج عشرون رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ ثم تضمہ مع " ان کل سنۃ موکدۃ یاثم تارکھا"، فالعشرون رکعۃ یاثم تارکھا وقدمات ھذا القیاس قد ثبتنا ھا بالدلائل"
بیس رکھعات تراویح سنت موکدہ ہے، اس لئے کہ اس پر صحابہ کرام نے ، مواظبت کی ہے اگرچہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے مواظبت نہیں فرمائی اور پہلے بات گزر چکی ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت بھی لازم الاتباع ہے اور اسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔ اگرچہ سنت خلفاء کے چھوڑنے کا گناہ سنت نبویہ کے چھوڑنے کے گناہ سے کم ہے اور جو آٹھ رکعات تراویح پر اکتفاء کرتا ہے وہ خلفاء راشدین کی سنت کا تارک ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا "(تحفۃ الاخیار صفحہ ۳۰۸
مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا اپنا موقف اور عمل کیا ہے؟؟ ان کی کتب سے واضح ہے کہ وہ بیس رکعت ہی کو سنت مانتے ہیں۔ تصریحات پیش خدمت ہیں:
ثبت اھتمام الصحابۃ علی عشرین فی عھد عمر و عثمان و علی فمن بعدھم اخرجہ مالک و ابن سعد البیھقی و غیر ھم و ما واظب علیہ الخلفاء فعلا او تشریفا ایضا سنۃ لحدیث علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین اخرجہ ابو داود و غیرہ[عمدۃ الرعایۃ ج1 ص175]
ترجمہ:عہد عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اور اس کے بعد بھی صحابہ کرام کا بیس رکعت پر اہتمام ثابت ہے، اسے امام مالک، ابن سعد اور بیہقی و غیرہ نے نقل کیا ہے۔اور جس پر خلفاء راشدین نےفعلا یا قولا مواظبت کی ہو وہبھی سنت ہےکیونکہ ابو داود وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ تم پر میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے۔
(ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدہ۔( ترجمہ:تراویح بیس رکعت سنت موکدہ ہے۔
(فمن اکتفی علی ثمان رکعات یکون مسیئا (ترجمہ:جو شخص آٹھ رکعت پر اکتفا کرے وہ برا کام کرنے والا ہے۔
(عشرون رکعۃ یاثم تارکھا۔ (ترجمہ:بیس رکعت کا تارک گنہگار ہو گا۔
شیخ عبد الحق رحمہ اللہ کی کتاب "فتح الرحمن" کے حوالے سے لکھتے ہیں
فالظاہر انہ قد ثبت عندھم صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم عشرین رکعۃ کما جاء فی حدیث ابن عباس فاختارہ عمر۔[تحفۃ الاخیار ص211]
ترجمہ: پس یہ بات ظاہر ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز بیس رکعت ثابت ہے جیسا کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنایا ہے ۔
ایک بات یاد رکھیں کہ بعض مرتبہ ایک محدث کسی حدیث کو سند کے اعتبار سےصحیح کہ دیتا ہے لیکن عمل اس پر نہیں کرتا بلکہ سند کے اعتبار سے جہ اس سے کم درجہ کی ہو اس پر کرتا ہے۔ جیسے صحیح بخاری میں ران کے ستر ہونے کے مسئلہ میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
(و حدیث انس اسند و حدیث جرھد ھذا احوط حتی نخرج من اختلافھم۔[صحیح بخاری ج1 ص53
ترجمہ:حضرت انس کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے لیکن حضرت جرھد کی حدیث[جس میں ران کے ستر ہونے کا ذکر ہے] میں احتیاط زیادہ ہے،[اس لیے اس پر عمل کریں گے] حتی کہ اختلاف سے بچ جائیں۔
مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے حدیث جابر رضی اللہ عنہ کو صحیح کہا لیکن عمل حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ پر کیا[جو بیس رکعت کے متعلق ہے] گویا امام بخاری رحمہ اللہ کے طرز کے مطابق احتیاط کا پہلو اختیار فرمایا ہے کہ بیس میں آٹھ تو ادا ہو جائیں گی لیکن آٹھ میں بیس کی ادائیگی ناممکن ہے۔۔

ملا علی قاریؒ اور بیس تراویح
ملا علی قاریؒ کا موقف پیش کرنے میں سخت خیانت سے کام لیا گیا ہے ۔ملا علی قاریؒ نے تو اسی کتاب میں یہ لکھا ہے :۔
اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ

صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوا کہ تراویح بیس رکعات ہیں
(مرقاۃ المفاتیح، باب شھر رمضان الفصل الثالث جلد ۳ صفحہ ۳۷۲)
اسی طرح شرح النقایہ میں فرماتے ہیں
فصار اجماعاً لماروی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوا یقومون علی عھد عمر بعشرین کعۃ وعلی عھد عثمان و علی
شرح النقایہ ، فصل فی الوتر والنوافل جلد ۱ صفحہ ۱۰۴)
لا علی قاری رحمہ اللہ نے واضح طور پر بیس کی روایات نقل کی ہیں جو ان کے موقف[ بیس رکعت]کی واضح دلیل ہیں۔ چند عبارات ملاحظہ ہوں:
1: والذي صح أنهم كانوا يقومون على عهد عمر بعشرين ركعة
[مرقاۃ ج 4 ص 435]
ترجمہ:صحیح سند سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔
2: أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعة
[مرقاۃ ج 4 ص 441]
ترجمہ:صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے۔
3: فصار اجماعا لما روی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوا یقومون علی عھد عمر بعشرین رکعۃ وعلی عھد عثمان و علی رضی اللہ عنھم
[شرح النقایہ ج1 ص 342]
ترجمہ:پس اجماع ہو گیا،کیونکہ بیھقی میں سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے، ایسے ہی خلافت عثمانی اور خلافت علی میں بھی۔
4: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں بیس رکعت تراویح کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
و کانہ مبنی علی ما رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ و الطبرانی من حدیث ابن عباس انہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر۔
[شرح النقایہ ج1 ص 342]
ترجمہ: گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر مبنی ہے جسےامام ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ آ پ علیہ الصلاۃ والسلام رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔
ان واضح تصریحات کی موجودگی میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی کی جانب آٹھ رکعت کا قول منسوب کرنا تعجب انگیز ہے۔

شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور غیر مقلدین کا دھوکہ

اہلحدیث حضرات بیس تراویح کے رد میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا ایک حوالہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک بیس تراویح سنت نہیں اور بیس تراویح کی روایت ضعیف ہے۔ 
غیر مقلدین کے عالم نذیر احمد رحمانی کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح سنت ہے اور علمائے حنفیہ کی شہادت کا عنوان دے کر اپنی کتاب انوار المصابیح صفحہ 34 پہ لکھتے ہیں کہ '' شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کہتے ہیں کہ یعنی محدثین کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور منقول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے زمانے میں بعض سلف کا اسی پہ عمل تھا ، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے شوق میں۔'' ( انوار المصابیح، صفحہ 34 بحوالہ ماثبت السنۃ از محدث دہلویؒ)۔
یہاں ان غیر مقلد عالم کی مراد یہ ہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک بھی 8 رکعت تراویح ہی سنت ہے اور 20 تراویح کی روایت ضعیف ہے۔ 
سب سے پہلے تو شاہ صاحب نے اس بات کی کوئی سند بیان نہیں کی کہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں گیارہ رکعت تراویح ہوتی تھے اور بغیر سند بات غیر مقلدین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
غیر مقلدین حضرات ہمیشہ کی طرح ادھوری بات ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ ان غیر مقلد عالم نے اس عبارت سے پہلی اور اگلی عبارت چھوڑ دی جس سے شاہ محدث دہلوی کا اپنا موقف واضح ہوتا تھا۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی کا جو حوالہ ان غیر مقلد عالم نے پیش کیا بلکہ اسی حوالہ سے اوپر شیخ ؒ اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ '' ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بہیقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ اور علی رضی اللہ کے عہد میں بھی اتنی ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں بیس رکعت پڑھیں اور اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھی'' ( ماثبت السنۃ صفحہ 217)۔
یہاں محدث دہلویؒ نے واضح بیان کیا کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں جو امام بہیقی کی صحیح روایت سے ثابت ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی بیس پہ موجود ہے لیکن محدث اس کو ضعیف کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہاں دہلویؒ خود ابن عباس رضی اللہ کی روایت کو ضعیف نہیں کہہ رہے بلکہ ان کا کہنا کے کہ محدث اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں۔
اگلی خیانت غیر مقلد عالم نے یہ کی کہ جو حوالہ پیش کیا اس سے اگلی عبارت بھی چھوڑ دی تاکہ حقیقت پتہ نہ چل سکے۔
اسی عبارت سے اگلی عبارت شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ '' عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ نبی کریم ﷺ سے مشابہت ہو جائے اور گنتی جو ٹھہر گئی ہے صحابہ اور تابعین سے اور ان کے بعد کے لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں'' ( ماثبت السنۃ صفحہ 218)۔
شاہ صاحب نے اگلی عبارت میں ہی وضاحت کر دی کہ صحابہ کرام، تابعین اور انکے بعد لوگوں سے بیس رکعت ہی مشہور ہے جس کو ان غیر مقلد عالم نے بیان نہیں کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت پتہ نہ چل سکے۔
اس کے علاوہ شاہ عبدالحق دہلوی ؒ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ 
''صحیح یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو گیاوہ رکعت پڑھی وہ آپ کی تہجد تھی ( یعنی تین وتر، آٹھ رکعت تہجد)، اور ابن ابی شیبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت (تراویح) پڑھی۔( اشعۃ اللمعات، باب قیام شھر رمضان، صفحہ 249)۔
تو شاہ صاحب کا موقف واضح ہو گیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو تہجد مانتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیس تراویح کی روایت کو تراویح مانتے ہیں جیسا کہ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے۔
انور شاہ کشمیریؒ اور بیس تراویح
امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے الخ
اورایک دوسرے مقام پر امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله نے فرمایا کہ حضر
ت فاروق الأعظم رضی الله عنه کا یہ فعل سنت ہے اوراسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے الخ
وقال العلامة محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله ، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة فى التراويح وعليه جمهور الصحابة الخ
أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين‘‘ فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة... واستقر الأمر على عشرين ركعة. اھ۔
العَرف الشذي شرح سنن الترمذي جلد 2 صفحہ 208
علامہ کشمیری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو 20 کا حکم دیا تو ضرور ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کوئ اصل صحیح سند سے پہنچی ہو گی اگرچہ وہ ہم تک صحیح سند سے نہ پہنچی ہو۔
علامہ کشمیری کے الفاظ یہ ہیں:
''لا بد من أن يكون لها أصل منه وإن لم يبلغنا بالإسناد القوي۔''
الكتاب : العرف الشذي شرح سنن الترمذي
اور آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ 20 پر اجماع ہے، اس سے کم کا کوئ بھی قائل نہیں۔ علامہ کشمیری کے الفاظ یہ ہیں:
''لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح ، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم۔''
الكتاب : العرف الشذي شرح سنن الترمذي

شاہ صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی 20 رکعت تراویح کی روایت بیان کر کے فرماتے ہیں کہ '' تلقتۃ الاُمۃ بلقبول'' کہ حضرت عمر کے اس عمل کو امت کی طرف سے تلقی بلقبول حاصل ہے۔۔۔ اور جو 8 رکعت پہ اکتفا کرتا ہے وہ سواد اعظم سے کٹ گیا اور سواد اعظم پہ بدعت کا الزام لگاتا ہے تو وہ اپنا انجام سوچ لے۔۔ (فیض الباری، جلد 3 صفحہ 375)۔۔

امام طحطاویؒ اور غیر مقلدین کے دھوکے کا جواب
اکثر غیر مقلدین امام طحطاویؒ کا حوالہ دیتے ہیں کہ تراویح بیس نہیں بلکہ آٹھ رکعت ہے لیکن غیر مقلدین امام طحطاویؒ کی ادھوری عبارت نقل کرتے ہیں۔
امام طحطاویؒ کے نزدیک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بیس تراویح کی روایت ضعیف ہے لیکن اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ''بیس تراویح ثابت ہے خلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے''۔اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ''تراویح بیس رکعت ہے اجماع صحابہ کی وجہ سے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ مکمل جو (بیس رکعت) سنن ہیں وہ مکمل جو فرائض علمیہ و اعتقادیہ کے برابر ہو جائے۔(حاشیہ طحطاوی،1/269/270) 
دوسری کتاب میں بھی لکھتے ہیں کہ ''تراویح بیس رکعت ہیں''( حاشیہ طحطاوی علی رد المختار،1/296)۔
تو امام طحطاوی کا مؤقف واضح ہوا کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔

ابن نجیم حنفی اور بیس تراویح 
غیر مقلدین آٹح رکعت تراویح ثابت کرنے کے لئے ابن نجیم حنفی کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک تراویح آٹھ کعت ہیں لیکن اس حوالہ میں بھی غیر مقلدین خیانت کرتے ہیں۔
ابن نجیم حنفی کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں ،ابن نجیم حنفی نے اصل میں ابن ہمام کی فتح القدیر سے ان کا قول نقل کیا تھا کہ ان کے نزدیک آٹھ رکعت سنت ہے لیکن غیر مقلدین نے ابن ہمام کے قول کو ابن نجیم حنفی کی طرف منسوب کر دیا۔
ابن نجیم لکھتے ہیں کہ ''بیس رکعت کا لفظ تراویح کی تعداد بیان کرنے کے لئے مصنف نے لکھا ہے اور یہی جمہور کا مؤقف ہے۔اس لئے کہ موطا امام مالک میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس رکعت پڑھتے تھے اوراسی پر شرق و غرب کے لوگوں کا عمل ہے لیکن محقق ابن ہمام نے فتح القدیر میں ذکر کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دلیل اس بات کو چاہتی ہے کہ ان میں سے سنت اسی قدر ہے جو آپ نے پڑھیں اور فرضیت کے خوف سے جماعت کے ساتھ چھوڑ دیں۔اور ان کی تعداد گیارہ رکعت مع وتر کے ثابت ہے جیسا صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ حدیث سے ثابت ہوا''( البحر الرائق،2/117)۔ البحر الرائق کا یہ مکمل حوالہ فتاوی علمائے حدیث جلد 6 میں بھی موجود ہے۔
تو ابن نجیم حنفی کے حوالہ سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک جمہور کا مسلک بیس تراویح ہے جو شرق و غرب میں پڑھی جاتی ہے اور آٹھ رکعت کا موقف ابن ہمام کا تھا جس کو غیر مقلدین نے ابن نجیم حنفی کی طرف منسوب کر دیا۔
باقی علامہ ابن ہمام ؒ کا صرف اٹھ کو سنت کہنا ان کا اپنا تفرد ہے اور علامہ کشمیریؒ اور عبد الحی لکھنوی ؒ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کا اپنا تفرد ہے جو قابل اعتبار نہیں۔
خود غیر مقلدین کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن ہمامؒ کے تفرد کو احناف قبول نہیں کرتے۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری علامہ ابن ہمام ؒکے تفردات کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''علامہ ابن ھمام حنفی کو فقہ حنفی میں اجتہادی مقام حاصل تھا اور انہوں نے کئی مسائل میں اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کو خود علمائے احناف نے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔لہذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہو گا وہ قابل قبول نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے حنفی مذہب باور کر لیا جائے۔'' ( توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 546)۔۔
یہاں غیر مقلدین کے مستند عالم نے خود تسلیم کر لیا کہ ابن ہمامؒ کا تفرد احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے تو پھر مسئلہ تراویح میں بھی ان کے تفرد کو بار بار پیش کرنا غیر مقلدین کے لئے جائز نہیں۔


غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
محسن اقبال

جمعہ، 4 مئی، 2018

غیر مقلد علماء کے جھوٹ


غیر مقلد مولانا داؤد ارشد کا کہنا ہے کہ( حافظ حبیب اللہ ڈیروی اپنی کتاب نورالصباح میں لکھتے ہیں کہ''حضرت امام ابو حنیفہؒ نے ترک رفع الیدین والی نماز اپنے استاد حماد سے سیکھی اور انہوں نے ابراھیم نخعی سے اور انہوں نے اسود و علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ سلام سے اور حضرت جبرائیل علیہ سلام خدا تعالیٰ سے لے کر آیا۔ فلھذا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا کرو۔(نورالصباح،219) یہ روایت ماشاء اللہ ڈیروی صاحب کی ایجاد ہے جس کا وجود کتب حدیث میں قطعاََ نہیں پایا جاتا۔)

یہاں داؤد ارشد صاحب نے مولانا ڈیرویؒ پر الزام لگایا کہ انہوں نے ایک روایت خود ایجاد کی لیکن  اصل میں لوگوں کو دھوکہ داؤد ارشد صاحب نے خود دیا۔ مولانا ڈیرویؒ نے تو غیر مقلد عالم نور حسین گرجاکھی کو الزامی جواب دیا  تھا۔ 
مولانا ڈیرویؒ نے لکھا تھا کہ''مولوی نور حسین گرجاکھی غیر مقلد اپنے رسالہ ''قرۃ العینین '' میں عنوان قائم کرتے ہیں دوسری حدیث صدیقِ اکبر، اور پھر آگے لکھتے ہیں (جس کا خلاصہ ہے) ابن جریح رفع یدین کرتے تھے۔امام عبدالرزاق فرماتے ہیں کہ ابن جریح نے نماز عطاء سے سیکھی ہے اور عطاء نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے  اور انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور انہوں نے جبرائیل ؑ سے اور جبرائیل ؑ خدا سے لے کر آیا ۔گرجاکھی صاحب نے اس کو حدیث سمجھ کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا حالانکہ یہ امام عبدالرزاقؒ کا قول ہے۔۔۔۔۔ اگر اسی کا نام حدیث ہے تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے ترک رفع الیدین والی نماز اپنے استاد حماد سے سیکھی اور انہوں نے ابراھیم نخعی سے اور انہوں نے اسود و علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ سلام سے اور حضرت جبرائیل علیہ سلام خدا تعالیٰ سے لے کر آیا۔ فلھذا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا کرو۔

یہاں مولانا ڈیرویؒ نے نور حسین گرجاکھی کو الزامی جواب دیا ہے کہ جیسے نور حسین گرجاکھی کے مطابق  امام عبدالرزاق کے قول حدیث ہے تو اسی اصول کے مطابق ہمارے پاس  امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے ، اگر اسی کا نام (یعنی امام عبدالرزاق کا قول) حدیث ہے سے واضح مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا ڈیرویؒ تو مولوی نور حسین گرجاکھی کو الزامی جواب دے رہے تھے لیکن داؤد ارشد صاحب نے مکمل عبارت پیش نہیں کی اور الزامی جواب کو تحقیق بتا کر مولانا ڈیرویؒ پر  جعلی حدیث گھڑنے کا الزام لگا دیا۔۔۔اس سے ثابت ہوا کہ داؤد ارشد نے مولانا ڈیرویؒ پر جو حدیث گھڑنے کا الزام لگایا وہ بلکل غلط ہے اور خودمولانا داؤد ارشد نے ادھوری عبارت پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔

غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، محسن اقبال