بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک طالبعلم کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اس بارے میں جو بعض آئمہ کی کتب میں شدید قسم کا طعن آیا ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر، جیساکہ امام عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی ’’کتاب السنۃ ‘‘ وغیرہ میں، لہذا اس بارے میں کیا مؤقف ہونا چاہیے؟
جواب: اس قسم کی باتیں لوگوں میں اس سے پہلے معروف نہيں تھیں مگر بعض جاہلوں نے دو دن ہوئے فضائی چینلز پر یہ فتنہ مچا رکھا ہے، ورنہ لوگ اس کی کھوج ہی نہيں کرتے تھے۔ جی امام عبداللہ بن امام احمد رحمہما اللہ کی کتاب السنۃ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام ہے، جو حال میں اس میں داخل کردیا گیا حالانکہ جو اس سے پہلے مطبوعہ نسخہ تھا ا س میں ان میں سے کوئی بھی چیز نہيں تھی، لیکن اب ڈال دی گئی۔
ان سلف کا قصد جنہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کیا اس پہلو سے بھی تھا کہ آپ قیاس پر اعتماد کرتے ہيں اور آپ کا غالباً انحصار قیاس پر ہوتا ہے۔ جس نے آپ پر مؤاخذہ کیا ہے تو وہ بس اس بات کا کیا ہے کہ آپ قیاس کو (بہت) لیتے تھے۔ حالانکہ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ قیاس ایک شرعی دلیل ہے، کیونکہ دلائل کے اصول یہ ہیں:
’’کتاب وسنت، اجماع وقیاس‘‘۔
لیکن آئمہ کرام قیاس کی طرف نہيں جاتے الا یہ کہ اس کی ضرورت ہو یعنی جب کتاب وسنت اور نہ ہی اجماع سے کوئی دلیل ملے تو پھر وہ قیاس کا کہتے ہیں۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قیاس کے معاملے میں کچھ وسعت اختیار فرماتے ہیں، اسی چیز پر ان کا مؤاخذہ کیا گیا اور معیوب گردانا گیا کہ وہ قیاس میں کچھ زیادہ ہی وسعت اختیار فرماتے ہیں۔
بعض محققین نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے یہ جواب دیا ہے کہ بلاشبہ آپ عراق میں رہتے تھے اور وہ فتنوں کا وقت تھا، اس دور میں جھوٹ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احادیث وضع کرنا بڑی شدت سے پھیل گیا تھا، اسی لیے آپ نے قیاس پر اعتماد کیا ان وضاعین (حدیثیں گھڑنے والوں) اور کذابین (جھوٹوں) کے خوف سے، کیونکہ جھوٹ عراق میں بہت پھیلا ہوا تھا، برخلاف حجاز یعنی مکہ مدینہ کے ، کیونکہ یہاں اہل روایت و اہل حدیث و ماہرین تھے، جبکہ عراق میں جب فرقوں کی بہتات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ اور وضع کی بھی کثرت ہوگئی، پس اس صورتحال میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قیاس پر اعتماد فرمایا (اور اسی میں عافیت جانی)۔ یہ تھا وہ سبب جس کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قیاس میں وسعت اختیار فرمائی۔
بلاشبہ آپ ایک جلیل القدر امام ہیں، اور آئمہ اربعہ میں سے سب سے پہلے ہیں، آپ نے تابعین عظام رحمہم اللہ سے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم حاصل فرمایا۔ پس بے شک آپ ایک جلیل القدر امام ہيں، اور آپ کے عقیدے اور دین کے تعلق سے کوئی کلام نہيں (کہ وہ غلط تھا)، انہوں نے بس اس قیاس میں وسعت اختیار کرنے ہی پر مؤاخذہ فرمایا ہے ، آپ رحمہ اللہ کا مؤاخذہ اس بات پر ہے۔ حالانکہ اس میں بھی آپ معذور تھے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کیونکہ آپ کے وقت میں جھوٹ اور وضع حدیث بہت افشاء ہوچکا تھا، خصوصاً عراق میں، پس آپ اس بات سے بہت ڈرے۔
بہرحال ہم نہیں چاہتے کہ اس قسم کے مسائل پھیلائے جائيں۔ اور ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محبت کرتے ہیں، وہ ہمارے امام ہیں، کیونکہ بلاشبہ وہ اہل سنت والجماعت میں سے ہیں، پس وہ ہمارے امام ہیں اور ہم کبھی بھی ان پر طعن نہيں کرتے۔